Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/ejaznews/public_html/ur/wp-includes/wp-db.php on line 2056

WordPress database error: [Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired]
SELECT * FROM wp_upviews WHERE user_ip = '3.238.118.27' AND post_id = '51116'


Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/ejaznews/public_html/ur/wp-includes/wp-db.php on line 2056

WordPress database error: [Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired]
SELECT COUNT(*) FROM wp_upviews WHERE post_id ='51116'

Fort Monroe

فورٹ منرو

EjazNews

جنوبی پنجاب کے طویل حصّے پر پھیلے صحرائی اور وسیع میدانی علاقے، پہاڑ، دریااور جھیلیں اس خطے کی نہ صرف ثقافتی و سیّاحتی شناخت اجاگرکرتے ہیں، بلکہ خُوب صُورتی و دل کشی کے اعتبار سے بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان ہی علاقوں میں ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک خوب صُورت، قابلِ دید مقام، ’’فورٹ منرو‘‘ بھی ہے، جو اس خطّے میں اپنی ایک الگ شناخت اور منفرد پہچان رکھتا ہے۔ وسیع و عریض علاقے پر پھیلے اس علاقے میں جہاں ایک طرف سرسبز میدان اور لہلہاتے کھیت ہیں، تو دوسری جانب کوہِ سلیمان کا خوب صورت پہاڑی سلسلہ ہے۔ کوہِ سلیمان کے نالے اور جگہ جگہ رود کوہیاں اس کا حُسن بڑھاتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے قریباً 85کلو میٹر اور سطحِ سمندر سے 6470 فٹ کی بلندی پر واقع اس پہاڑی مستقر پر سفر کے دوران یہ پورا علاقہ ایک وسیع و عریض اوپن ائر تھیٹر کی مانند نظر آتا ہے۔ یہاں کبھی کبھی برف بھی پڑتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب جنوبی پنجاب میں سورج غضب کی گرمی برساتا ہے، تو عوام کی ایک بڑی تعداد اس پُر فضا اور ٹھنڈے تفریحی مقام کا رُخ کرتی ہے۔ جہاں اناری ہل، جھیل، پیالہ، باغ، کھر اور مرکزی بازار ان کا استقبال کرتے ہیں۔

برطانوی دورِ حکومت میں انگریزوں نے بہت سے مقامات دریافت کر کے انہیں ترقی دی۔ اُن ہی میں ایک فورٹ منرو بھی ہے، جو اب بھی بہت سے سیّاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔بعض مورخین کے مطابق فورٹ منرو کا پرانا نام ’’اناری‘‘ تھا، جسے برصغیرپر انگریزوں کے قبضے کے بعد برطانوی دورِحکومت کے کرنل منرو سے موسوم کر دیا گیا، جو بعد ازاں فورٹ منرو کہلایا۔ انگریز چوںکہ سرد علاقوں سے آئے تھے، تو برصغیرپاک و ہند میں پڑنے والی شدید گرمی اُن کی برداشت سے باہر تھی، لہٰذاانہوں نے برِصغیر کے طول و عرض میں ٹھنڈی جگہیں تلاش کیں، جو کہ زیادہ تر پہاڑوں پر تھیں۔ مختلف پُرفضا مقامات کی دریافت کے بعد وہاں تک رسائی کے لیے راستے، سڑکیں بنانے کے علاوہ ان جگہوں پرمختلف دفاتر، رہائش کے لیے گھر، تفریح گاہیں، کھیل کے میدان، سینی ٹوریمز، لانڈریز اور دیگر بنیادی ضروریات بہم پہنچائی گئیں۔ مقامی باشندوں کو ملازم بھرتی کر کے وہیں سرونٹ کوارٹرز الاٹ کیے گئے، جس سے مقامی لوگوں کو روزگار ملا اور ان علاقوں کی ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ برطانوی دورِ حکومت میں بنائے گئے ان ہِل اسٹیشنز میں مَری، اوٹی، زیارت، لیہہ، ایبٹ آباد، پہلگام، سکیسر، شیلانگ، مسوری، نتھیا گلی اور فورٹ منرو شامل ہیں۔ فورٹ منرو ضلع ڈیرہ غازی خان کے انتہائی مغربی حصّے اور بلوچستان و پنجاب کے سنگم پر واقع ہے، یہ مقام انیسویں صدی کے اواخر میں انگریز فوجی آفیسر، سر رابرٹ گرووز سنڈیمن نے دریافت کیا اور اس کا نام اس وقت کے ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر، کرنل اے اے منرو کے نام پر رکھا گیا۔ جنہوں نے ڈیرہ جات اور بلوچستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1866ء میں جب انہیں ڈیرہ غازی خان کا ضلعی افسر تعینات کیا گیا، تو انہوں نے مقامی قبائلیوں پر اپنی شخصیت کی دھاک بٹھادی۔ 1871ء کی مٹھن کوٹ کانفرنس میں انہیں پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوہِ سلیمان کے مَری، بُگٹی اور مزاری قبیلوں سے متعلق سیاسی فیصلوں کا حق دے دیا گیا، جس سے ان علاقوں پر ان کا کنٹرول مضبوط ہو گیا۔ برطانوی حکومت نے جنرل سنڈیمن ہی کے ذریعے نہ صرف خان آف قلّات سے مذاکرات کیے اور بلوچ قبائل کے سرداروں کی مالی معاونت کی، بلکہ شورش زدہ علاقوں کو انگریز سامراج کے اندر ایک پُر امن علاقہ بنانے میں اہم کرداربھی ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں:  کیا آپ نے کویت دیکھا ہے، نہیں تو، ہم دکھاتے ہیں

جنوبی پنجاب کےاس اکلوتے ہِل اسٹیشن، فورٹ منروتک رسائی کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔اس مقام تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں، سب سے سیدھا، آسان اور پُرکشش و دل کش راستہ تو ملتان یا لیہ سے ڈیرہ غازی خان، سخی سرور ہے، جب کہ صوبہ بلوچستان سے آنے والے سیّاح لورالائی اور میختر اور رکنی سے ہوتے ہوئے فورٹ منرو پہنچ سکتے ہیں۔یہاں کا سب سےحسین مقام دماس جھیل ہے، جو ہر سُو اپنی رعنائی، دل کشی اور حُسن کے جلوے بکھیرتی ہے۔ نقشے پر ’’انسانی گُردے‘‘ کی شکل سے مشابہ جھیل دماس سردیوں میں سکڑ جاتی ہے، جب کہ برسات اور گرمیوں کے دنوں میں اس کا جوبن دیکھنے والا ہوتا ہے۔ جھیل کے قریب ہی پہاڑ کے اوپرڈپٹی کمشنر ہائوس کے ساتھ واقع ایک کہن سالہ قلعے کے آثار بھی ملتے ہیں، جہاں زرد رنگ کی ایک برجی آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔برصغیر پر قبضے کے بعدتاجِ برطانیہ نے اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لیے خطّے کے طول و عرض میں اپنے نمائندے، فوجی اور ماہرین بھیجے، جنہوں نے مرتے دم تک ان علاقوں میں رہائش رکھی، ان گورے نمائندوں نے مختلف علاقوں میں پُختہ سڑکیں، نت نئی عمارات، دفاتر، اور مکانات تعمیر کیے اور برسوں ان علاقوں میں خدمات سر انجام دیں۔ان میں سے بہت سے افسروں اور ان کے خاندان کے دیگر افرادکی قبریں آج بھی یہاںموجود ہیں۔چھوٹی سی چار دیواری کے اندر واقع فورٹ منرو کے گورا قبرستان میں جنگلے کے اندرپانچ قبریں موجود ہیں، جو عدم توجہی کے سبب خستہ ہو رہی ہے،تاہم ان قبروں کے کتبے اب بھی بہ آسانی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ایک قبر جنوبی افریقا کے مسٹر ایچ اسمتھ کی ہے، جو30 سال کی عمر میں فورٹ منرو کے کسی مقام پر نہاتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوا تھا۔اس قبرستان کی بائیں دیوار کے ساتھ ڈپٹی کمشنر ہائوس (جو منرو لاج بھی کہلاتا ہے) واقع ہے، اور اس کے پہلو میں ایک قدیم عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں ’’دفتر عدالت پولیٹیکل اسسٹنٹ’’لکھا ہے۔ عمارت کے پیچھے ایک پوائنٹ واقع ہے، جہاں پاکستان کے قومی دنوں پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ قریب ہی ایک پتھر پر ’’پاکستان زندہ باد’’ اور بلوچ سرداروں کے نام کندہ ہیں۔ پہاڑی کے گرد ایک پکّی اور خوب صورت سڑک بَل کھاتی ہوئے گزرتی ہے، جو فورٹ منرو کے دیگر مقامات تک پہنچاتی ہے۔ فورٹ منرو جانے والے سیّاح اس مقام کی دل فریبی کے علاوہ اس کے بل کھاتے راستے، بلندی کی طرف جاتی سڑک، رینگتے ہوئے ٹرک، ان کے ہارنز کی پہاڑوں میں گونجتی بازگشت اور ٹھنڈی ہوائیں بھی ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ سفر کے دوران ایسے خطرناک موڑ بھی آتے ہیں، جہاں مسافر خوف سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، لیکن فورٹ منرو پہنچتے ہی سب خوف اور تھکن دُور ہو جاتی ہے۔ پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ندی، نالے اپنے تیز بہائو کے سبب مشہور ہیں۔ موسمِ برسات میں یہاں انتہائی تیز رفتاری سے بہنے والا پانی راستے میں آنے والی ہر چیز بہا لے جاتا ہے۔حالاں کہ اس بہتے پانی کو کئی مفید مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے، مگرکوئی مصرف اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے بہنے والا یہ لاکھوں کیوسک پانی ضائع ہو جاتا ہے۔اگرچہ ماضی میں متعدد بار یہاں ڈیم بنانے کے اعلانات بھی کیے گئے، لیکن تاحال عمل درآمد نہ ہوسکا۔ حالاں کہ اگر یہاں ڈیم بنا دیا جائے، تو یہ جنوبی پنجاب کی خوش حالی، سیرابی اور شادابی کے لیےاہم سنگِ میل ثابت ہوسکتا ہے۔یاد رہے، فورٹ منرو سے چند ہی کلومیٹر دُور ایک بلند ترین مقام ’’اناری ہل‘‘ واقع ہے، جہاں سیّاح بادلوں سے اٹکھیلیاں کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  گلگت بلتستان میں بہت کچھ ہے دیکھنے کیلئے

اگرچہ یہ ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ہے، جسے ترقی اورفروغ دے کر خاصا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مقام پر بھی پلاٹس کی دھڑا دھڑ خرید و فروخت جاری ہے اور تیزی سے رہائشی مکانات تعمیر کیے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے بھی ہاؤسنگ کالونی بنائی گئی، اسی طرح نجی طور پر بھی بہت سی ہاؤسنگ اسکیمیز وجود میں آ چکی ہیں، جو سستے پلاٹ اور مکان کی تعمیر میں مدد دیتے ہیں۔ سیّاحوں کے لیے یہاں کئی نئے ہوٹل اور لاجز بھی کُھل چکے ہیں، جہاں کھانے پینے کی اشیاء مناسب داموں دستیاب ہیں،تاہم دُوردراز سے آنے والے بیش تر سیّاح اپنے کھانے پینے کا سامان ساتھ لاتے ہیں۔ نیز، یہاں چند سرکاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہیں، جو ڈی جی خان ڈویژن کے اضلاع لیّہ، مظفر گڑھ، راجن پور اور ڈی جی خان کے نام سے قائم ہیں، لیکن یہ سرکاری افسروں اور مہمانوں ہی کے لیے مخصوص ہیں، جب کہ کچھ سرداروں اور وڈیروں نے بھی یہاں گھر بنا رکھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  زمبابوے۔۔۔اک عجب طلسم کدہ ہے

فورٹ منرو کو اگر جنوبی پنجاب کا مَری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ تاہم، فی الحال سیّاحتی و تفریحی سہولتوں کی کمی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ پُرفضا مقام ملکی و غیر ملکی سیّاحوں کی آمد و رفت سے محروم ہے۔ اگر اس علاقے میں سیّاحتی اعتبار سے مناسب سہولتیں فراہم کر دی جائیں، تواسے ملک میں گرمیوں کی بہترین سیرگاہ( Summer Resort) میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پھر محکمہ سیّاحت اگر یہاں قیام کے لیے ہوٹلز اور ریسٹ ہاؤسز تعمیر کردے، تو جہاں مُلکی و غیر مُلکی سیّاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا، وہیں مُلکی زرِمبادلہ بھی بڑھے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں