کندھار کے پٹھان امراء نے یہاں محلات تعمیر کئے
معروف ادبی اور سماجی شخصیات کا تعلق قصور شہر سے ہے
قصور عربی زبان کے لفظ قصر کی جمع ہے جس کا معنی محل ہوتا ہے، قصور شہر کو شہنشاہ اکبر کے دور میں کندھار کے پٹھان امرا کو عطا کیاگیاتھا ۔انہوں نے یہاں پر اپنے خاندانوں کی رہائش کے لیے علیحدہ علیحدہ قلعہ نما محل تعمیر کروائے، انہی محلات کی وجہ سے قصور کا نام معرض وجود میں آیا۔
تاریخی روایات کے مطابق 533 ءمیں یہاں پر خویشگان پٹھانوں نے قبضہ کیا ۔ 1020ءمیں لاہور کے راجہ جے پال نے اس کا لاہور کے ساتھ الحاق کر لیاتھا ۔
مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر نے1526ء میں ہندوستان فتح کرنے کے بعد افغانوں کی خدمات کے صلے میں قصور کا علاقہ ان کو عنایت کیا تھا ،یہاں پر زیادہ تر منظم حکومت افغان پٹھانوں کی رہی ہے جنہیں دہلی یا لاہور حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا لیکن وہ مقامی طور پر خود مختار حیثیت رکھتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں چین کا ایک مشہور سیاح ہیون تسانگ یہاں پہنچا اور یہاں کے حالات بھی تحریر کیے، اس کی تحریر سے ہمیں آثار قدیمہ کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔
1830ءمیں یہاں پر راجہ رنجیت سنگھ کی صورت میں سکھوں کا قبضہ ہو گیا جو 1847 ءتک رہا اور بعد ازاںپنجاب کے انگریزی حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے یہاں پر بھی انگریز قابض ہو گئے ۔
پہلے زمانے میں ان کے بڑے بڑے دروازے تعمیر کیے گئے تھے، اب ان کے صرف آثار باقی ہیں یہ محلات بعد میں کوٹ کے نام سے مشہور ہوئے بہت سے کوٹ اب بھی انہی پرانے ناموں کے ساتھ موجود ہیں۔ مثلاً کوٹ حلیم خاں، کوٹ فتح دین خاں، کوٹ عثمان خاں، کوٹ غلام محمد خاں، کوٹ رکن دین خاں ،کوٹ مراد خاں،کوٹ اعظم خاں، کوٹ بدردین خاں، کوٹ پیراں، کوٹ بڈھا ،کوٹ میربازخاں، کوٹ شیربازخاں، دھوڑکوٹ، روڈ کوٹ اور کوٹ علی گڑھ وغیرہ۔
دنیا کا سب سے بڑا ہاتھ سے لگایا ہوا جنگل چھانگا مانگا ضلع قصور میں ہی ہے ۔ یہ جنگل 12 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد بھی یہاں کے لوگوں نے مختلف تحریکوں میں بہادری کے جوہر دکھائے ۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع قصور کی کل آبادی 29 لاکھ 55 ہزار افراد پر مشتمل ہے جبکہ اس کا رقبہ 3995 مربع کلومیٹر ہے ۔
یہاں پر 96 فیصد مسلمان جب کے چار فیصد عیسائی رہتے ہیں ۔ لاہور سے جنوب کی طرف 55 کلومیٹر دور واقع قصور پنجاب کا مرکزی شہر ہے، سطح سمندر سے اس کی اوسط بلندی 218 میٹر ہے۔ انگریز حکومت نے قصور کو 1867ء میں میونسپلٹی کا درجہ دیاتھا جبکہ قیام پاکستان کے بعد یکم جولائی 1976ء کو لاہور سے علیحدہ کر کے قصور کو ضلع کادرجہ دے دیا گیا۔ یہ شہر مذہبی، ثقافتی اور روحانی روایات کا امین ہے۔
قصور کی تاریخ صدیوں سے لاہور شہر سے منسلک ہے اس لیے لاہور کی بہت مشابہت یہاں ملتی ہے۔یہاں پر لاہوریوں کی طرح کھانے کے دلدادہ لوگ ہیں۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں فتح ہونے والابھارتی شہر کھیم کرن بھی ہے۔ یہاں پر ایک بڑی ٹینکوں کی جنگ کے مقام کی وجہ سےعلاقے کو ٹینکوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔
1883ء میں رائے ونڈ سے گنڈا سنگھ والاتک ریلوے لائن بچھائی گئی تھی ۔ 1910ء میں قصور سے لودھراں تک ریلوے ٹریک مکمل ہوا۔ تقسیم ہند سے پہلے قصور بذریعہ ریل امرتسر،فیروزپور سے ملا ہوا تھا مگر اب یہ ریلوےلائن ختم کر دی گئی ہے اور اس کا زیادہ تعلق بذریعہ سڑک اور ریل لاہور سے قائم ہے۔
قصور شہر کے مشرقی حصے سے فیروزپور روڈ گزرتی ہے جو لاہور سے شروع ہو کر براستہ گنڈا سنگھ والا فیروزپور تک جاتی ہے، تقسیم ہند کے بعد یہ سڑک بین الاقوامی پاک بھارت سرحد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، یہ شاہراہ قصور شہر سے لاہور تک تقریباً 55 کلومیٹراور بھارتی شہر فیروزپور تک 25 کلومیٹر ہے ۔قصور کا عجائب گھر فیروزپور روڈ پر ضلعی کمپلیکس کے سامنے واقع ہے، جس کا قیام 1999ء میں عمل میں آیا، قصور عجائب گھر میں تاریخ کے مختلف ادوار اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں، اس میں آثار قدیمہ کے متعلق چکوال سے دریافت شدہ پرانے درختوں اور ہڈیوں کے نمونے رکھے گئے ہیں، جن کی عمر کا اندازہ 88 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی مقامات کی کھدائیوں سے ملنے والے پکی مٹی کے برتن، ٹھیکریاں، انسانی و حیوانی مورتیاں، اوزان کے پیمانے اور باٹ کے علاوہ گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
ضلع قصور میں ہاتھ سے لگایا پاکستان کا سب سے بڑا جنگل چھانگا مانگا تحصیل چونیاں میں موجود ہے ۔ اس میں بہت سے قیمتی درخت اگائے گئے ہیں ، یہاں سے سالانہ ٹنوں کے حساب سے شہد اکٹھا ہوتا ہے ، یہاں پر توت کا درخت بہت کثرت سے ہے جس کے پتوں پر ریشم کے کیڑے پال کر بہترین قدرتی ریشم حاصل کیا جاتا ہے ، چھانگا مانگا کے جنگل میں ایک خوبصورت تفریحی پارک سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے ، یہ جنگل مختلف قسم کے جانوروں کی پناہ گاہ کا کام بھی دیتا ہے ، چھانگا مانگا کی لکڑی پورے ملک میں مشہور ہے ، ضلع میں مشہور درخت کیکر ، شیشم ، شہتوت ، سفیدہ ،بیری ، جامن ، آم ، شیریں ، نیم، دھریک ،پیپل اور برگد وغیرہ کثرت سے ہیں جبکہ جنڈ ، کریر اور ون گاہے بگاہے نظر آتے ہیں ۔پلچھی دریائی علاقوں میں خودرو جھاڑی کے طور پر نمی والی اور ریتلی جگہ میں اگتی ہے جس کی شاخوں سے ٹوکریاں وغیرہ بنتی ہیں۔
دیہی ضلع ہونے کی وجہ سے 78 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے جن کی اکثریت زراعت پیشہ ہے ، اب دیہات سے بڑے قصبوں اور شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے ، زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے لوگ مویشی بھی شوق اور کثرت سے پالتے ہیں جن سے گوشت اور دودھ کی ضرورت پوری کی جاتی ہے ، یہاں سے دودھ جمع کر کے لاہور کی اکثریتی آبادی کے لئے بھی سپلائی کیا جاتا ہے ۔
اس شہر کو بابا بلھے شاہ کے مزار کی وجہ سے بھی ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے۔جیسے لاہور میں حضرت علی ہجویریؒ کے مزار کی وجہ سے لاہور کو ایک خاص اہمیت ملتی ہے اسی طرح بابا بلھے شاہ کی وجہ سے قصور بھی کی اپنی اہمیت ہے۔
یہاں کی مشہور شخصیات میں :خورشید محمود قصوری،شارے خاں (مختار احمد المعروف شارے خاں احمد خاں)،نور جہاں (گلوکارہ)،معراج خالد،ارشاد احمد حقانی،سردار آصف احمد علی،بڑے غلام علی خان، نجم سیٹھی،پروفیسر غازی علم الدین،ملک احمد سعید خان،علیم شکیل،محمد محسن خان،ملک محمد احمد خان،مفتی ثناء اللہ مدنی،یوسف خان اداکارو دیگر شامل ہیں۔
قصور شہر کو بارہ کوٹوں میں تقسیم کیا گیا تھالیکن اب یہ شہر کافی پھیل چکا ہے، تا ہم یہ کوٹ اب بھی موجود ہیں۔
ان کے نام ذیل میں ہیں:کوٹ غلام محمدخان،کوٹ عثمان خان،کوٹ حلیم خان،کوٹ رکن دین خان،کوٹ فتح دین خان،کوٹ اعظم خان، کوٹ بدر دن خان، دھور کوٹ، روڈ کوٹ، کوٹ مراد خان، کوٹ امیر باز خان، کوٹ علی گڑھ