شاہدرہ میں دریائے راوی کے نزدیک تین خوبصورت مقابر ہیں۔ ایک ملکہ ہند نورجہا ں کا، دوسرا شہزادہ سلیم المعروف جہانگیر بادشاہ کا اور تیسرا آصف جاہ گورنر لاہور کا۔
لاہور میں واقع تمام تاریخی عمارات میں سے شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور آج بھی اس کی دلکشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مقبرہ جہانگیر کے فرش کا حسن اور خوبصورتی اس قدر ہے کہ شاید ہی کوئی عمارت اس جیسی ہو۔ اگرچہ سکھوں نے عمارت کو بہت نقصان پہنچایا اور جہانگیر کے مقبرے سے بھی بڑے قیمتی پتھر اکھاڑدئیے۔ پھر بھی یہ عمارت آج بھی بہت خوبصورت ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ اگرچہ اس تاریخی عمارت کو بچانے اور اس کے حسن کو دوبالا کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے مگراس کے لئے ایک خطیر رقم درکار ہے۔
دو انگریزوں نے1626میں لاہور کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’لاہور ہندوستان میں چوٹی کا شہر ہے۔ ہر چیز یہاں بہ افراط مل سکتی ہے۔
حقیقت میں ایسا خوبصورت، ہموار اور آباد قطعہ زمین کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہندوستان کے ہر حصہ کے سوداگر یہاں موجود ہیں۔ تجارت کی گرم بازاری ہے۔ سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ کے لئے سوداگر جہازوں میں اپنامال لادتے ہیں اور دریا کے کنارے ایک عجیب رونق رہتی ہے۔ ہر سال بارہ سے چودہ ہزار اونٹ مال و اسباب سے لدے ہوئے قندھار کے راستے ایران کوجاتے ہیں۔‘‘ اب یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
جہانگیر کی تخت نشینی کے چوتھے ہی مہینے ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جہانگیر کی اپنے سب سے بڑے بیٹے خسرو سے ہمیشہ ان بن رہتی تھی۔ جہانگیر کی تخت نشینی کےبعد چار ماہ تک تو خسرو خاموش رہا پھر دفعتاً آگرہ کے قلعہ سے نکل بھاگااور 10ہزار سواروں کی معیت میں دہلی اور متھرا کو تاراج کرتا ہوا لاہور آپہنچا۔ آتے ہی حکم دیا کہ قلعہ کو فتح کرکے سات روز تک شہر کوبےدریغ لوٹو۔ بچہ، جوان، عورت جوملےاسے قتل کردو اور شہر کو آگ لگا دو۔
فوج ایک دروازہ جلا کر شہر میں ابھی داخل ہی ہوئی تھی کہ جہانگیر بھی ایک کثیر فوج کے ساتھ آ پہنچا۔خسرو نےمقابلہ کیا مگر شکست کھا کر کابل کی طرف بھاگا لیکن راستے میں سوہدرہ (متصل وزیرآباد) کے قریب گرفتار ہو کر واپس لایاگیا۔ جہانگیر اس وقت مرزا کامران کی بارہ دری میں جوراوی کےکنارے واقع ہے ، مقیم تھا۔ اس وقت خسرو کے ہمراہ 700آدمی تھے جن میں حسن بیگ بدخشانی، اس کا سپہ سالار اور عبدالرحیم دیوان لاہور بھی شامل تھے۔ جہانگیر نے بارہ دری سے قلعہ لاہور تک دو طرفہ لکڑی کی پھانسیاں گڑوائیں اور ان سات سو قیدیوں کو یکدم پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا۔ خسرو کو پابہ زنجیر ایک ہاتھی پر بٹھایا گیا اور جس راستے اس کے سات سو ہمراہی سخت اذیتوں سے مارے جارہے تھے اسی راستے اسے قلعہ میں بھجوایا گیا تاکہ وہ اپنے باغی ہمراہیوں کا انجام دیکھ لے۔ اس کے علاوہ اس کے سپہ سالار حسن بیگ کو گائے کی کھال میں اور عبدالرحیم دیوان لاہور کو گدھے کی کھال میں زندہ بند کرا دیااور یہ دنوں دم گھٹ کر مر گئے۔ خسرو اس کے بعد پانچ سال تک قید رہا۔ آخر 1621میں نہایت ذلت و رسوائی کی حالت میں مر گیا۔ لاہور کے لوگوں پر اس واقعہ کا بڑا اثر ہوا ایک ہی دن میں سات سو آدمیوں کا پھانسی پانا ایک نہایت ہی دل ہلا دینے والا واقعہ ہے۔
اکبر یورپین پادریوں کی بے حد عزت کرتا تھا لیکن جہانگیر اس سے بھی دو قدم آگے نکلا۔ اس نے گووا کےپادریوں کو لاہور میں سب سے پہلے ایک گرجا تعمیر کرنے کی اجازت دی اور ان کے لئے خزانہ ٔ لاہور سے معقول وظائف بھی مقرر کئے۔ شاہجہاں نے جو اکبر اور جہانگیر کی نسبت شریعت کا زیادہ پابند تھا تخت پر بیٹھتے ہی اس گرجا کو مسمار کروا دیا اور پادریوں کے وظیفے ضبط کرلئے۔ اورنگزیب کے زمانہ میں 1665میں ایک فرانسیسی سیاح تھیوناٹ لاہور آیا اس وقت تک اس گرجا کے آثار باقی تھے۔
جہانگیر نے قلعہ میں بہت سی عالی شان عمارتوں کا اضافہ کیا اور اس کے امرا و وزرا ن نے کئی بینظیر عمارات لاہور شہر میںبنوائیں اور ان کے گرد وسیع باغات لگوائے۔
جہانگیر کو باپ کی طرح لاہور سے کمال انس تھا۔ 1622میں تو اس نے لاہور کو دارالسطنت ہی بنا لیا اور 1627میں جب اس نے سفر کشمیر کے دوران راجوری کے قریب وفات پائی تو لاہورہی میں دفن کئے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ اپنی چہیتی بیگم نورجہاں کے باغ دلکشا میں دفن کردیا گیا۔ اس کا عظیم الشان مقبرہ دریائے راوی کے دائیں کنارے پر قصبہ شاہدرہ کے پاس واقع ہے اور عجائبا ت عالم میں شمار ہوتا ہے۔
جہانگیر نے صوبہ لاہور کی باگ ڈور سعید خان کے سپرد کی۔ صوبہ دار آگرہ سے لاہور روانہ ہونے لگا تو شاہ عادل نے اسے کہا ’’میرا انصاف کبھی ظلم کو برداشت نہیں کرے گا خواہ ظالم کوئی بھی ہو۔ ہماری نظر میں چھوٹا بڑا سب برابرہیں۔ اگر تم نے یا تمہارے کارکنوں نے ظلم یاناجائز سختی سے کام لیا تو بغیر کسی لحاظ سے تمہیں سزا دی جائے گی۔‘‘ شہنشاہ کی نصیحت نہ صرف سعید خان بلکہ تمام درباریوں نے آویزہ گوش بنائی۔
یہ باغ دراصل نواب مہدی قاسم خان نے جو اکبر کے معزز اور نامی سرداروں میں تھا 965ہجری/1557ء کے قریب دریائے راوی کے پار تعمیر کرایا۔ ان کے اقتدار کا اس سے اندازہ کر لو کہ ان کا بھانجا حسین خاں ٹکریہ لاہور کا گورنر رہا ہے۔
اس باغ کا کوئی خاص نام نہ تھا ۔ اپنے بانی کے نام سے باغ مہدی قاسم خان ہی اس کا نام تھا۔ نواب چونکہ اولاد نرینہ سے محروم تھا اس لئے مہر النساء بیگم جب نور محل سے نور جہاں بنی تو اس نے اس باغ پر قبضہ کر لیا اور نام اس کا دلکشا رکھا اور دل کھول کر اس میں عمارات کا اضافہ کیا اور اس کو وہ رونق دی کہ شالامار باغ سے پہلے اس کے مقابلہ کا کوئی باغ اس وقت لاہور میں نہ تھا۔
جب باغ دلکشا میں جہانگیر دفن کیا گیا تو رفتہ رفتہ لوگ باغ دلکشا کا نام بھول گئے۔ اور اس کا نام مقبرہ جہانگیر مشہور ہو گیا آج لاہور میں بہت کم لوگ ہیں جن کو یہ علم ہے کہ مقبرہ جہانگیر جس چار دیواری کے اندر واقع ہے اس کا نام کبھی باغ مہدی قاسم اور باغ دلکشا بھی تھا۔
چاردیواری کے اندر باغ کی زمین ایک سو بیگھ ہے ۔ تیس بیگھ زمین عمارتی ہے باغ کے اندر پختہ روشیں اور سڑکیں موجود ہیں ۔ یہ عالیشان باغ خیابانوں فواروں حوضوں اور بارہ دریوں سے آراستہ ہے اور بلند و پختہ چار دیواری میں محدود غربی دیوار میں بہت بڑا دروازہ ہے جس میں سے ہاتھی معہ عماری گزر سکتا ہے ۔ چار دیواری کے باہر چار بہت بڑے وسیع کنوئیں موجود تھے جن میں سے ایک کے متعلق رائے بہادر کنہیا لال 1884ء میں لکھتے ہیں دریا برد ہو چکا ہے ۔ غربی دیوار کی طرف جو کنواں ہے وہ اب تک موجود ہے۔
اس کنوئیں میں اب ٹیوب ویل لگا دیا گیا ہے۔ جس سے باغ سیراب ہوتا ہے۔ یہ بڑا دروازہ جس میں سے ہاتھی معہ عماری گزر سکتا تھا ہمارے دیکھتے دیکھتے بند ہو گیا ہے ۔ باغ کا اصل دروازہ یہی تھا ۔ اس دروازہ کی عمارت سنگ سرخ کی تھی جس پر سنگ مرمر سے گل کاری کی گئی تھی۔ اوپر اللہ کا نام کنندہ تھا ۔ یہ دروازہ دو منزلہ ہے اور پچاس فٹ بلند ہے۔ اس کے چاروں گوشوں پر چھوٹے چھوٹے چار مینار ہیں۔ اس دروازے کے بالمقابل ایک بارہ دری تھی جو آج نابود ہے۔باغ کی مشرقی دیوار اور اس دیوار کی براہ دری کو دریا نے برباد کر دیا۔
اس باغ کے اندر بارہ حوض تھے ۔ ہر حوض میں فوارے پانی کی اچھل کود سے دل بہلاتے تھے ایک حوض دریا برد ہو چکا ہے۔
اس باغ کے قدیم درختوں میں چند ایک درخت پیپل و برگد وغیرہ موجود ہیں ۔ کھجوروں کے درخت بھی نسلاً بعد نسلاً قدیم نخلستان کی یاد دلاتے چل آ رہے ہیں۔
فصیل باغ کی دیواروں پر چاروں طرف ایک مسقف غلام گردش بنی ہوئی ہے جو شاہی باڈی گارڈ کے سپاہیوں اور خدام سلطنت کے قیام کے لئے مخصوص تھی۔
جہانگیر نے 1037 ہجری مطابق 1667ء میں وفات پائی ۔ باغ دلکشا کے عین وسط میں شاہجہان کے حکم سے اس کا مقبرہ تعمیر کیا گیا جس پر دس لاکھ روپے لاگت آئی۔ اس کے مصارف کے لئے جاگیر مقرر ہوئی۔ قرآن پڑھنے والے پانچ سو ملازم رکھے گئے جو نوبت بہ نوبت جہانگیر کے مزار پر قرآن شریف پڑھا کرتے تھے۔ جب زوال سلطنت مغلیہ کے بعد سکھ حکومت کے عروج کا زمانہ آیا تو نہ جاگیر رہی نہ قرآن خواں حافظ رہے ۔ مسلمانوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ۔ وہ مزاروں کا کیا خیال رکھتے۔
مزار ہشت پہلو اندر سے گنبد نما ہے۔ میانہ میں ایک چبوترہ سنگ مرمر کا عرضاً9فٹ، طولاً13فٹاور ارتفاعاًڈیڑھ فٹ ہے۔اس چبوترہ پر قبر کا تعویز سنگ مرمر کے ایک ٹکڑہ کا ہے ۔ جو ڈھائی فٹ بلند، پونے دو گز لمبا اور دس گز چوڑا ہے۔ چبوترہ اور قبر پر سنگ عقیق، سنگ لاجورد، سنگ سلیمانی نیلم، زہر مہرہ سنگ مرجان، سنگ ابری وغیرہ قیمتی پتھروں سے گلکاری کی ہوئی ہے۔
جس طرح اس مقبرہ کی عمارت عالیشان تھی اور شاہی شان و شوکت کا اس سے اظہار ہوتا تھا، ویسا ہی سکھوں نے اس کے ساتھ سنگدلی کا ثبوت دے کر اس کو عبرت انگیز بنا دیا۔ اس مقبرہ کو کس قدر صدمے پہنچے اور اس کے ساتھ سکھ حکومت نے کیا سلوک کیا۔ اس کی کیفیت رائے بہادر کنہیالال کی تاریخ لاہور کے صفحات 321 تا 326 میں درج ہے یہاں کچھ مختصر سا ذکر کیا جاتا ہے۔
مقبرہ کی منڈیروں پر سنگ مر مر کی جالیوں کے علاوہ شمع جلانے کے جو مرمریں ستون تھے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم سے اکھاڑ کر امرتسر پہنچائے گئے اور دربار صاحب کے پل پر لگائے گئے پھر اور مقامات سے جس قدر قیمتی پتھر اتروائے گئے وہاں جونہ کا پلستر کرادیا گیا۔ مقبرہ کا دروازہ مغرب کی جانب ہے اور مقبرۃ کا کمرہ اوپر سے مسقف ہے۔ اس سقف کے اوپر بالائی چبوترہ پر پھرسنگ مر مر کی قبر بنائی گئی تھی جو نشان کے طور پر تھی یہ دونوں چھتیں سنگ مر مر کی تھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چھت کے اوپر بارہ دری تھی جو مہاراجہ کے حکم سے اتروا لی گئی ۔ بعض کے خیال میں سوبھا سنگھ یا لہنا سنگھ حاکم لاہور نے یہ سلیں اتروا لیں اور چونکہ اس طریق سے قبر بے پردہ ہوگئی تھی اور جب کبھی بارش ہوتی تھی تو قبر اور اس کی عمارت کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے اس نے اس پر چوبی چھت بنوا دی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم سے ارجن سنگھ پسر ہری سنگھ نلوہ بھی اس جگہ کچھ عرصہ مقیم رہا اس کے ایام قیام بھی اس عمارت کے لئے ہولناک زلزلہ سے کم نہ تھے۔ اس نے کئی جگہ سے سنگ مرمر کی جالیاں اکھڑوا لیں۔ پھر مہاراجہ نے یہ مقبرہ اپنے فرانسیسی فوجی افسر جنرل امائز کو رہنے کے لئے دیا جس کی وفات کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں ہی نے مسلمانوں کی اس فلک پائیگاہ عمارت کو برباد کرنا شروع کیا۔ یعنی جب امیر دوست محمد خاں والئی افغانستان کا بھائی سردار سلطان محمد خان بھائی سے ناراض ہو کر لاہور آیا تو مہاراجہ نے اس کو شاہدرہ جاگیر میں دے کر یہ باغ اور مقبرہ اس کے حوالے کردیا۔ وہ چند سال اس باغ اور مقبرہ کی عمارتوں میں رہا ۔ اندر کی دیواروں میں جس قدر نگینے تھے اس کے ہمراہی وحشی افغانوں نے پتھر توڑ کر ان کو نکال لیا اور باغ کو اپنی بے تمیزی اور گھوڑوں اور جانوروں کا اصطبل بنا کر خراب کردیا۔
اب صدمات کے باوجود مقبرہ اور اس کی عمارت کی خوش اسلوبی، استقامت، پائیداری اور سنگینی دیکھ کر معمار خود حیران رہ جاتا ہے۔
مقبرہ کے اوپر جانے کے لئے چاروں طرف سنگ سرخ کے زینے بنے ہوئے ہیں چاروں گوشوں پر چار برج ہیں اور ہر برج پر ایک ایک مینار۔ ہر مینار سو فٹ بلند ہے اور اس میں اکسٹھ سیڑھیاں ہیں۔ ہر مینار کی ہر ایک کھڑکی میں جو ہوا اور روشنی کے لئے ہے سنگھ مرمر کے جالی دار کٹہرے تھے وہ بھی مہاراجہ نے اکھڑوا لئے اور ان کی جگہ خشی چونے کے کٹہرےبنوا دیئے۔
مقبرہ کی عمارت ایک سنگین مربع چبوترے پر ہے جس کا ہر ضلع 260 فٹ ہے۔ یہ پانچ فٹ بلند ہے۔
الحاق پنجاب کے بعد انگریز حکام نے 1889-90ء میں مقبرہ کی مرمت کرائی جس پر ساڑھے بارہ ہزار روپیہ صرف ہوا اس کے بعد بھی مرمت کا کام جاری رکھنے کے لئے اکتالیس ہزار چھ سو روپیہ کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے چھت کی منڈیروں پر سنگ مر مر کی جالیاں لگوائیں۔ باغ ازسر نو آبا د کیا۔ مقبرہ کی بالائی چھت جو لکڑی کی بنائی گئی تھی بالکل خراب ہوگئی تھی۔ رائے بہادر کنہیا لال ایگزیکٹو انجینئر و مولف تاریخ لاہور کی معرفت کئی ہزار روپے کی لاگت سے مرمت کرائی گئی۔ جب دریا اس باغ اور مقبرہ کی چار دیواری سے ٹکرانے لگا تو گورنمنٹ انگریزی نے کئی ہزار روپیہ خرچ کرکے ایک بندبنوایا جس سے مقبرہ آئندہ کے لئے غرقابی کے اندیشہ سے بچ گیا۔
لیڈی ڈفرن نے جب وائسرائے ہند لارڈ ڈفرن کے ہمراہ اپریل 1885ء میں لاہور کی سیاحت کی تو اس نے مقبرہ کے متعلق اپنی والدہ کو خط میں لکھا:۔
’’مقبرہ بھی ایک بڑی مربع عمارت ہے جس کے کونوں پر چار بلند مینار ہیں اس کے سقف اور برآمدے نقش و نگار سے خوب آراستہ ہیں اور مقبرہ میں داخل ہونے کے تمام راستوں میں تراشے ہوئے اور جالی دار مرمریں دروازے ہیں۔ قبر سفید ہے اور اس میں اطالوی وضع پر رنگین مر مر کے ٹکڑوں کا کام کیا گیا ہے ۔اس عمارت کی چھت بھی مرمریں ہے۔ پھر ہم اس سے اور بھی اوپر ایک مینارے کی آخری حد تک شہر کے نظارے کے لئے پہنچے۔ یہ واقعی ہمارے لئے ایک ناشائستہ اور نازیبا امر تھا کہ جہانگیر کی قبر کے اوپر ہم چائے نوشی کرتے لیکن ہم نے ایسا کیا اور اس نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اس مقبرہ کی مرمت کے لئے پونے دو لاکھ روپیہ کی منظوری دی۔ لیکن چونکہ سنگ مر مر، سنگ احمر، سنگ خطوط، سنگ بدل اور سنگ سیاہ پاکستان میں دستیاب نہ ہوتےتھے اس لئے یہ ہندوستان سے درآمد کئے گئے ان کے پہنچنے میں کچھ دیر لگی۔ اس دوران مقبرہ کے مینار کا ایک چھجا خود بخود گرگیا جس کی وجہ سے سیر کرنے والوں میں سے ایک مرد ایک عورت ہلاک اور پانچ چھ افراد مجروح ہو گئے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے بعد میناروں میں داخلہ بند کردیا اور خطرے کے نشانات بھی نصب کردیئے تھے۔ اس باغ میں ہر سال پار کا میلہ نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ یہ عام طور پر گرمیوں میں آتا تھا۔ جب آفتاب کی حدت جوبن پر ہوتی ہے۔ دھوبی اور شہر کے بےفکرے اس میں بکثرت حصہ لیتے تھے۔ علاوہ ازیں ہر اتوار کو اکثر شرفا اور سیاحت پسند لوگ پارٹیاں بنا کرتفریح طبع کے لئے اس باغ میں آتے ہیں اور دوپہر کا کھانا اسی جگہ کھا کر شام کو واپس جاتے ہیں، اہل اخبارات میں سے کارخانہ پیسہ اخبار لاہور کا برسوں تک یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اپنے عملے اور کارخانہ کے ملازمین کو مقبرہ جہانگیر میں ایک شاندار دعوت دیتا تھا۔ 17جنوری 1923کی سہ پہر کو اس باغ میں ایک عظیم الشان گارڈن پارٹی منعقد ہوئی جس میں چھ سات سو معزز اصحاب لاہور، امرتسر، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ وغیرہ مقامات سے مدعو تھے۔ سرجان مینارڈ، لارڈ میکلیگن گورنر پنجاب معہ اپنے وزراء کے پرنسس دلیپ سنگھ (مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی) ہائی کورٹ کے اعلیٰ جج، اعلیٰ عہدیدار، خطاب یافتہ رئوسا، راجے، نواب، پنجاب کونسل کے ممبر، ڈاکٹرز، وکیل، مدیران اخبارات، شعراء غرض ہر قسم کے لوگ موجود تھے۔ یہ پارٹی معززین لاہور نے حکیم الامت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کو نائٹ (سر) کا معزز خطاب ملنے کی خوشی میں دی تھی۔
اس کنوئیں میں اب ٹیوب ویل لگا دیا گیا ہے۔ جس سے باغ سیراب ہوتا ہے۔ یہ بڑا دروازہ جس میں سے ہاتھی معہ عماری گزر سکتا تھا ہمارے دیکھتے دیکھتے بند ہو گیا ہے ۔ باغ کا اصل دروازہ یہی تھا ۔ اس دروازہ کی عمارت سنگ سرخ کی تھی جس پر سنگ مرمر سے گل کاری کی گئی تھی۔ اوپر اللہ کا نام کنندہ تھا ۔ یہ دروازہ دو منزلہ ہے اور پچاس فٹ بلند ہے۔ اس کے چاروں گوشوں پر چھوٹے چھوٹے چار مینار ہیں۔ اس دروازے کے بالمقابل ایک بارہ دری تھی جو آج نابود ہے۔باغ کی مشرقی دیوار اور اس دیوار کی براہ دری کو دریا نے برباد کر دیا۔
اس باغ کے اندر بارہ حوض تھے ۔ ہر حوض میں فوارے پانی کی اچھل کود سے دل بہلاتے تھے ایک حوض دریا برد ہو چکا ہے۔
اس باغ کے قدیم درختوں میں چند ایک درخت پیپل و برگد وغیرہ موجود ہیں ۔ کھجوروں کے درخت بھی نسلاً بعد نسلاً قدیم نخلستان کی یاد دلاتے چل آ رہے ہیں۔
فصیل باغ کی دیواروں پر چاروں طرف ایک مسقف غلام گردش بنی ہوئی ہے جو شاہی باڈی گارڈ کے سپاہیوں اور خدام سلطنت کے قیام کے لئے مخصوص تھی۔
جہانگیر نے 1037ہجری مطابق 1667ء میں وفات پائی ۔ باغ دلکشا کے عین وسط میں شاہجہان کے حکم سے اس کا مقبرہ تعمیر کیا گیا جس پر دس لاکھ روپے لاگت آئی۔ اس کے مصارف کے لئے جاگیر مقرر ہوئی۔ قرآن پڑھنے والے پانچ سو ملازم رکھے گئے جو نوبت بہ نوبت جہانگیر کے مزار پر قرآن شریف پڑھا کرتے تھے۔ جب زوال سلطنت مغلیہ کے بعد سکھ حکومت کے عروج کا زمانہ آیا تو نہ جاگیر رہی نہ قرآن خواں حافظ رہے ۔ مسلمانوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ۔ وہ مزاروں کا کیا خیال رکھتے۔
مزار ہشت پہلو اندر سے گنبد نما ہے۔ میانہ میں ایک چبوترہ سنگ مرمر کا عرضاً9فٹ، طولاً13فٹاور ارتفاعاًڈیڑھ فٹ ہے۔اس چبوترہ پر قبر کا تعویز سنگ مرمر کے ایک ٹکڑہ کا ہے ۔ جو ڈھائی فٹ بلند، پونے دو گز لمبا اور دس گز چوڑا ہے۔ چبوترہ اور قبر پر سنگ عقیق، سنگ لاجورد، سنگ سلیمانی نیلم، زہر مہرہ سنگ مرجان، سنگ ابری وغیرہ قیمتی پتھروں سے گلکاری کی ہوئی ہے۔
جس طرح اس مقبرہ کی عمارت عالیشان تھی اور شاہی شان و شوکت کا اس سے اظہار ہوتا تھا، ویسا ہی سکھوں نے اس کے ساتھ سنگدلی کا ثبوت دے کر اس کو عبرت انگیز بنا دیا۔ اس مقبرہ کو کس قدر صدمے پہنچے اور اس کے ساتھ سکھ حکومت نے کیا سلوک کیا۔ اس کی کیفیت رائے بہادر کنہیالال کی تاریخ لاہور کے صفحات 321 تا 326 میں درج ہے یہاں کچھ مختصر سا ذکر کیا جاتا ہے۔
مقبرہ کی منڈیروں پر سنگ مر مر کی جالیوں کے علاوہ شمع جلانے کے جو مرمریں ستون تھے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم سے اکھاڑ کر امرتسر پہنچائے گئے اور دربار صاحب کے پل پر لگائے گئے پھر اور مقامات سے جس قدر قیمتی پتھر اتروائے گئے وہاں جونہ کا پلستر کرادیا گیا۔ مقبرہ کا دروازہ مغرب کی جانب ہے اور مقبرۃ کا کمرہ اوپر سے مسقف ہے۔ اس سقف کے اوپر بالائی چبوترہ پر پھرسنگ مر مر کی قبر بنائی گئی تھی جو نشان کے طور پر تھی یہ دونوں چھتیں سنگ مر مر کی تھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چھت کے اوپر بارہ دری تھی جو مہاراجہ کے حکم سے اتروا لی گئی ۔ بعض کے خیال میں سوبھا سنگھ یا لہنا سنگھ حاکم لاہور نے یہ سلیں اتروا لیں اور چونکہ اس طریق سے قبر بے پردہ ہوگئی تھی اور جب کبھی بارش ہوتی تھی تو قبر اور اس کی عمارت کو نقصان پہنچتا تھا اس لئے اس نے اس پر چوبی چھت بنوا دی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم سے ارجن سنگھ پسر ہری سنگھ نلوہ بھی اس جگہ کچھ عرصہ مقیم رہا اس کے ایام قیام بھی اس عمارت کے لئے ہولناک زلزلہ سے کم نہ تھے۔ اس نے کئی جگہ سے سنگ مرمر کی جالیاں اکھڑوا لیں۔ پھر مہاراجہ نے یہ مقبرہ اپنے فرانسیسی فوجی افسر جنرل امائز کو رہنے کے لئے دیا جس کی وفات کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں ہی نے مسلمانوں کی اس فلک پائیگاہ عمارت کو برباد کرنا شروع کیا۔ یعنی جب امیر دوست محمد خاں والئی افغانستان کا بھائی سردار سلطان محمد خان بھائی سے ناراض ہو کر لاہور آیا تو مہاراجہ نے اس کو شاہدرہ جاگیر میں دے کر یہ باغ اور مقبرہ اس کے حوالے کردیا۔ وہ چند سال اس باغ اور مقبرہ کی عمارتوں میں رہا ۔ اندر کی دیواروں میں جس قدر نگینے تھے اس کے ہمراہی وحشی افغانوں نے پتھر توڑ کر ان کو نکال لیا اور باغ کو اپنی بے تمیزی اور گھوڑوں اور جانوروں کا اصطبل بنا کر خراب کردیا۔
اب صدمات کے باوجود مقبرہ اور اس کی عمارت کی خوش اسلوبی، استقامت، پائیداری اور سنگینی دیکھ کر معمار خود حیران رہ جاتا ہے۔
مقبرہ کے اوپر جانے کے لئے چاروں طرف سنگ سرخ کے زینے بنے ہوئے ہیں چاروں گوشوں پر چار برج ہیں اور ہر برج پر ایک ایک مینار۔ ہر مینار سو فٹ بلند ہے اور اس میں اکسٹھ سیڑھیاں ہیں۔ ہر مینار کی ہر ایک کھڑکی میں جو ہوا اور روشنی کے لئے ہے سنگھ مرمر کے جالی دار کٹہرے تھے وہ بھی مہاراجہ نے اکھڑوا لئے اور ان کی جگہ خشی چونے کے کٹہرےبنوا دیئے۔
مقبرہ کی عمارت ایک سنگین مربع چبوترے پر ہے جس کا ہر ضلع 260 فٹ ہے۔ یہ پانچ فٹ بلند ہے۔
الحاق پنجاب کے بعد انگریز حکام نے 1889-90ء میں مقبرہ کی مرمت کرائی جس پر ساڑھے بارہ ہزار روپیہ صرف ہوا اس کے بعد بھی مرمت کا کام جاری رکھنے کے لئے اکتالیس ہزار چھ سو روپیہ کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے چھت کی منڈیروں پر سنگ مر مر کی جالیاں لگوائیں۔ باغ ازسر نو آبا د کیا۔ مقبرہ کی بالائی چھت جو لکڑی کی بنائی گئی تھی بالکل خراب ہوگئی تھی۔ رائے بہادر کنہیا لال ایگزیکٹو انجینئر و مولف تاریخ لاہور کی معرفت کئی ہزار روپے کی لاگت سے مرمت کرائی گئی۔ جب دریا اس باغ اور مقبرہ کی چار دیواری سے ٹکرانے لگا تو گورنمنٹ انگریزی نے کئی ہزار روپیہ خرچ کرکے ایک بندبنوایا جس سے مقبرہ آئندہ کے لئے غرقابی کے اندیشہ سے بچ گیا۔
لیڈی ڈفرن نے جب وائسرائے ہند لارڈ ڈفرن کے ہمراہ اپریل 1885ء میں لاہور کی سیاحت کی تو اس نے مقبرہ کے متعلق اپنی والدہ کو خط میں لکھا:۔
’’مقبرہ بھی ایک بڑی مربع عمارت ہے جس کے کونوں پر چار بلند مینار ہیں اس کے سقف اور برآمدے نقش و نگار سے خوب آراستہ ہیں اور مقبرہ میں داخل ہونے کے تمام راستوں میں تراشے ہوئے اور جالی دار مرمریں دروازے ہیں۔ قبر سفید ہے اور اس میں اطالوی وضع پر رنگین مر مر کے ٹکڑوں کا کام کیا گیا ہے ۔اس عمارت کی چھت بھی مرمریں ہے۔ پھر ہم اس سے اور بھی اوپر ایک مینارے کی آخری حد تک شہر کے نظارے کے لئے پہنچے۔ یہ واقعی ہمارے لئے ایک ناشائستہ اور نازیبا امر تھا کہ جہانگیر کی قبر کے اوپر ہم چائے نوشی کرتے لیکن ہم نے ایسا کیا اور اس نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اس مقبرہ کی مرمت کے لئے پونے دو لاکھ روپیہ کی منظوری دی۔ لیکن چونکہ سنگ مر مر، سنگ احمر، سنگ خطوط، سنگ بدل اور سنگ سیاہ پاکستان میں دستیاب نہ ہوتے تھے اس لئے یہ ہندوستان سے درآمد کئے گئے ان کے پہنچنے میں کچھ دیر لگی۔ اس دوران مقبرہ کے مینار کا ایک چھجا خود بخود گرگیا جس کی وجہ سے سیر کرنے والوں میں سے ایک مرد ایک عورت ہلاک اور پانچ چھ افراد مجروح ہو گئے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کے بعد میناروں میں داخلہ بند کردیا اور خطرے کے نشانات بھی نصب کردیئے تھے۔ اس باغ میں ہر سال پار کا میلہ نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ یہ عام طور پر گرمیوں میں آتا تھا۔ جب آفتاب کی حدت جوبن پر ہوتی ہے۔ دھوبی اور شہر کے بےفکرے اس میں بکثرت حصہ لیتے تھے۔ علاوہ ازیں ہر اتوار کو اکثر شرفا اور سیاحت پسند لوگ پارٹیاں بنا کرتفریح طبع کے لئے اس باغ میں آتے ہیں اور دوپہر کا کھانا اسی جگہ کھا کر شام کو واپس جاتے ہیں، اہل اخبارات میں سے کارخانہ پیسہ اخبار لاہور کا برسوں تک یہ معمول رہا کہ وہ ہر سال اپنے عملے اور کارخانہ کے ملازمین کو مقبرہ جہانگیر میں ایک شاندار دعوت دیتا تھا۔ 17جنوری 1923کی سہ پہر کو اس باغ میں ایک عظیم الشان گارڈن پارٹی منعقد ہوئی جس میں چھ سات سو معزز اصحاب لاہور، امرتسر، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ وغیرہ مقامات سے مدعو تھے۔ سرجان مینارڈ، لارڈ میکلیگن گورنر پنجاب معہ اپنے وزراء کے پرنسس دلیپ سنگھ (مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی) ہائی کورٹ کے اعلیٰ جج، اعلیٰ عہدیدار، خطاب یافتہ رئوسا، راجے، نواب، پنجاب کونسل کے ممبر، ڈاکٹرز، وکیل، مدیران اخبارات، شعراء غرض ہر قسم کے لوگ موجود تھے۔ یہ پارٹی معززین لاہور نے حکیم الامت علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کو نائٹ (سر) کا معزز خطاب ملنے کی خوشی میں دی تھی۔