Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/ejaznews/public_html/ur/wp-includes/wp-db.php on line 2056

WordPress database error: [Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired]
SELECT * FROM wp_upviews WHERE user_ip = '3.238.118.27' AND post_id = '50066'


Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/ejaznews/public_html/ur/wp-includes/wp-db.php on line 2056

WordPress database error: [Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired]
SELECT COUNT(*) FROM wp_upviews WHERE post_id ='50066'

uvas lahore

لاہور کا گھوڑا ہسپتال [ویٹرنری سکول کی تاریخ]

EjazNews

برصغیر میں انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ دینا شروع کی۔ اگر آپ تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنےآتی ہے کہ انگریزوں نے جنرل ایجوکیشن اور میڈیکل ایجوکیشن کے اداروں کے قیام پر زور دیا۔ اسی طرح برصغیر میں جانوروں کی بیماریوں کے حوالے سے پہلا ویٹرنری سکول قائم کیا اس زمانے میں مال برداری اور پولیس اپنے فرائض اور آمدورفت کے لئے گھوڑوں کا استعمال کیا کرتی تھی۔ انگریزوں نے یہاں آکر گھوڑوں کی افزائش نسل پر خصوصی توجہ دی اور اس زمانے کی خصوصی روایت یہ بھی ہے کہ نواب، انگریز اور حکمران تحفے میں ایک دوسرے کو قیمتی اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ برصغیر کے اس پہلے ویٹرنری سکول جو لاہور میں قائم کیا گیا کو گھوڑا ہسپتال بھی کہا جانے لگا کیونکہ یہاں پر بیمار گھوڑوں کا علاج بھی کیا جاتا تھا اور گھوڑوں کی چال کو بھی چیک کیا جاتا تھا۔ گھوڑوں کی ٹاپ سننے کے لئے ایک خصوصی برانڈہ بھی بنایا گیا جو آج بھی موجود ہے جہاں پر ویٹرنری ڈاکٹر گھوڑے کو چلا کراس کی چال کے بارے میں فیصلہ کیا کرتے تھے۔ آج ہم اس تاریخی عمارت کے بارے میں تھوڑی سی بات کریں گے یہ تاریخی عمارت لاہور کے تعلیمی اداروں میں خوبصورت ترین شمار ہوتی ہے۔ یہ لال اینٹ کی بنی عمارت ہے جو 130برس گزرنے کے باوجود پوری شان و شوکت اور مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ عمارت کی خوبصورتی اور مضبوطی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر کلاس روم کے باہر محرابیں موجود ہیں اور شدید موسم میں بھی اس عمارت میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ کمروں کی اونچائی 20اور 30فٹ کے درمیان ہے اور تمام عمارت ہوادار ہے جس کے آگے اور پیچھے گرائونڈز بنائی گئی ہیں تاکہ عمارت ہوادار بھی رہے اور خوبصورتی کا احساس بھی رہے۔ مختلف کمروں کے دروازوں کی اونچائی 15سے 30فٹ ہے۔ بعض لوگ قیاس کرتے ہیں کہ یہ عمارت بینک آف بنگال کی تاریخی عمارت ہے جو کہ اتنا درست خیال نہیں۔ گھوڑا ہسپتال کی تاریخی عمارت جس زمانے میں بنائی گئی تھی اس وقت یہ علاقہ ایک جنگل تھا اور اس کے اردگرد کسی آبادی کا نام نہیں تھا۔ آج سے 50برس قبل جب ہم سابق پولیس انسپکٹر سے ملے جن کی عمر اس وقت 80برس سے زیادہ تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ چوروں اور ڈاکوئوں کو پکڑنے کے لئے گھوڑوں پر آیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پر سوائے اس عمارت کے کچھ بھی نہیں تھا اوریہ بھی بہت وسیع عمارت تھی اور ایک وسیع رقبہ اس کے ساتھ منسلک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑا ہسپتال کے اردگرد کے علاقے جن کے نام یہ ہیں ٹیپ روڈ، اریٹیکن روڈ، ہوتا سنگھ روڈ، دیو سماج روڈکا بہت سارا رقبہ اس تاریخی کالج کے رقبے میں تھا جس پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرلیا اس تاریخی عمارت کی مرمت کے لئے وقتاً فوقتاً کام ہوتا رہتا ہے۔ اس کے موجودہ وائس چانسلر طلعت نصیر پاشا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  ہندواور مغلیہ ادوار کا لاہور

اولڈ بلڈنگ کی چھت لکڑی کے بالوں کی بنی ہے اس ادارے کی مرکزی عمارت میں اوپرجانے کے لئے آج بھی لکڑی کی ایک سوسال پرانی سیڑھیاں ہیں جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں اور یہ لکڑی کی سیڑھیاں بغیر کسی ستون کے کھڑی ہیں۔ اس تاریخی عمارت میں جانوروں کے حوالے سے ایک میوزیم بھی موجود ہے۔

تقریباً 130سال کی تاریخ کے ساتھ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسز ایشیا کی سب سے پرانی اور اعلیٰ ویٹرنری یونیورسٹی ہے۔1880ء سے یہ ادارہ ویٹرنری سکول کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس وقت سے یہ ادارہ ہمارے ملک کے جانوروں کی صحت، خوراک اور ان کی حفاظت کیلئے کام کر رہا ہے۔ انیسویں صدی میں یہ سکول ویٹرنری کالج بن گیا اور اس کے بعد اس ادارے کے نصاب کی وجہ سے بہت سے نام تبدیل کئےگئے ۔2002ءمیں اس ادارے کو دنیا میں کالج آف ویٹرنری سائنسز کے نام سے جانا جانے لگا۔

1954ء میں اس ادارے کا نام بدل کر پنجاب کالج آف اینیمل ہسبنڈری لاہور رکھا گیا اور ڈگری بھی B.S.C(A.H)میں بدل گئی اینیمل ہسبنڈری کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں ویٹرنری اور اینیمل ہسبنڈری سائنسز دونوں شامل ہیں۔

1959ءمیں نصاب میں دوبارہ سے تبدیلی لائی گئی اور کورس کو بڑھا کر دورانیہ 5سالہ کر دیا گیا تاکہ اس کی تعلیم پر طلبا اچھے طریقے سے غوروخوض کرسکیں اور بہتر تعلیم حاصل کرسکیں۔قومی معیشت میں لائیو سٹاک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ نے کالج آف ویٹرنری سائنسز کو 2002ءمیں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کا عہدہ دے دیا۔

اس یونیورسٹی کو مزید وسعت دی گئی اور تقریباً لاہور سے 70کلو میٹر کے فاصلے پر پتوکی میں ایک نیا کیمپس کا اجرا کیا گیا۔اس یونیورسٹی نے نہ صرف قومی سطح پر اپنی تعلیم اور ریسرچ کی وجہ سے نام کمایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بہت سی یونیورسٹیوں ، پرائیویٹ سیکٹر اور انڈسٹریز کے ساتھ مل کر کام کیا۔

یہ بھی پڑھیں:  عہد اکبر کے انتظامات کا جائزہ
https://www.youtube.com/watch?v=1aCsRnipcXw

یہ یونیورسٹی 116سے زائدPHDفیکلٹی ممبران پر مشتمل ہے اور تقریباً 6500سے زائد گریجویٹس اس یونیورسٹی سے مستفید ہو چکے ہیں اس یونیورسٹی نے پاکستان میں پہلا ڈرگ اینڈ POISONانفارمیشن سنٹر بنایا اس یونیورسٹی میں دنیا کے بہترین ٹیچنگ اینڈ لرننگ آلات استعمال ہوتے ہیں ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اس یونیورسٹی کو نہ صرف Wگیٹیگری بلکہ 3بہترین ایگریکلچرل ویٹرنری یونیورسٹیز میں سے عہدہ دیا یہ یونیورسٹی 7/24 کسانوں کو سروسز مہیا کرتی ہے۔

جب 1857ء میں برٹش راج اپنے عروج پر تھا تو لاہور چونکہ سنٹرل سٹی برصغیر کا تھا اس لئے اس حصہ میں بہت سے نئے ادارے بنے جن میں سے ایک ادارہ لاہور ویٹرنری سکول تھا جو کہ نومبر7-1881میں Santianedہوا اس ادارے کو بنانے کی منظوری گورنر جنرل آف انڈیا نے دی تاریخ میں اس ادارے کو لاہور ویٹرنری سکول اور پنجاب ویٹرنری سکول دونوں ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ اس ادارے کا آغاز 3مئی 1882میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ساتھ بلڈنگ میں ہوا ۔

LT.COL G.KETTLE WELL (1882-1890)یہ اس ادارے کے پہلے پرنسپل تھے انہیں یہاں پروفیسر انچارج کے عہدہ پر فائز کیا گیا یہ ایک ویٹرنری سرجن تھے مسٹر برک ان کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر تھے یہ سکول اسسٹنٹ ویٹرنری سرجن کے دوسالہ کورس کو پورا کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ وہ ویٹرنری پیشے کے غیر تعلیم یافتہ افراد کی جگہ لے سکیں ان کے دور میں 44طلبا ہپور سے لاہور ٹرانسفر کئے گئے اور 7نئے طلبا نے داخلہ لیا اس طرح ٹوٹل 51طلبا نے پہلے سال داخلہ لیا پہلے امتحانات میں 38طلبا نے شرکت کی جبکہ 30طلبا فرسٹ کلاس سرٹیفکیٹ ، 6طلبا سیکنڈ کلاس سرٹیفکیٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ 2 طلبا ایسے تھے جو اس امتحان میں پاس نہ ہو سکے LT.CO G.KETTLE WELLنے کچھ نئے کورسز متعارف کروائے جن میں Veterinary Medicine is Surgery Anatomy Phyriology Bovine Pathologyشامل ہیں ۔
LT.COL G.KETTLE WELL نے اس ادارے کی بہت پختہ بنیاد رکھی جس کی وجہ سے اس ویٹرنری سکول کو ویٹرنری کالج کے طور پر حوالہ دیا گیا ۔

سیٹھ محمد سرور (1947, 1950, 1953, 1955, 1961, 1962)سیٹھ محمد سرور کالج آف اینیمل ہسبنڈری لاہور کے پہلے مسلمان پرنسپل کے عہدےپر فائز ہوئے آپ 1907میں گجرات میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم گجرات سے ہی حاصل کی ۔اور 1923میں انگلینڈ چلے گئے پانچ سال وہاں رہنے کے بعد MRCVSپاس کیا اور واپس اپنے ملک آ گئے ۔

یہ بھی پڑھیں:  آریوں کی برصغیر میں آمد

یہ ڈیپارٹمنٹ آف اینیمل ہسبنڈری میں پہلے ویٹرنری انوسٹیگیشن کے طور پر مقرر ہوئے 1937میں آپ پتھیالوجی میڈیسن اور پھر سرجری میں پروفیسر کے عہدے پرفائز ہوئے اور 1939میں ڈیپارٹمنٹ آف اینیمل ہسبنڈری NWFPمیں ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔
42-1941دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے برٹش انڈین گورنمنٹ کے ساتھ کام کیا اور 1943میں آپ کو ممبر آف برٹش ایمپر MBCکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد انہیں کالج آف اینیمل ہسبنڈری CAHلاہور کے پرنسپل کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں 1950تک انہوں نے اپنی خدمات سرانجام دیں ۔1951سے 1953تک آپ نے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اینڈ ڈپلویلپمنڈاینیمل فارمز کے ساتھ کام کیا پھر 1953سے 1955تک آپ پھر CHAکے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔اور 1955میں آپ کو اینیمل ہسبنڈری کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز کیا گیا ۔
62-1961تیسری بار پھر سے کالج آف اینیمل ہسبنڈری لاہور کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے مسٹر سیٹھ یونیورسٹی آف پنجاب کے سنڈیکیٹ اور رکن بھی تھے اور اسی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس کے ڈین کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں انہوں نے 1981میں اپنی وفات تک جانوروں کی پیداوار میں گہری دلچسپی دکھائی ۔

یونیورسٹی کی تاریخی عمارت کے حوالے سے ہم نے یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طلعت نصیر پاشا (ستارہ امتیاز)سے بات چیت کی جو قارین کی نذر ہے۔ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا نے بتایا کہ یہ تاریخی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے یہ لال اینٹ کی عمارت ہے جب لاہور میں چھوٹی لال اینٹ کی بجائے عمارات کی تعمیر میںبڑے سائز کی لال اینٹ کا استعمال شروع ہو ااس وقت اس کی تعمیر شروع کی گئی اس عمارت کا رقبہ 55ایکٹر پر مشتمل ہے ۔2002 میں جب یونیورسٹی کےلیے نئی عمارت تعمیر کی گئی تو بدقسمتی سے مینجمنٹ نئی عمارت کی فن تعمیر پرانی عمارت جیسی نہ کرسکی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عمارت کی تعمیر کے لیے پنجاب حکومت 20کروڑ سے زیادہ رقم نہیںدے سکتی تھی اور فن تعمیر پر 20کروڑ سے زیادہ لاگت آنی تھی ہم اس کی تزہین وآرائش اور مرمت کا خیال رکھتے ہیں ۔عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو ہم اس کی مرمت وقت فوقتاًکرواتے رہتے ہیں تاکہ یہ عمارت اپنے اصل فن حسن کے ساتھ زندہ رہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں