بھارت کے نقطہ وسط پر واقع شہر، بھوپال اپنی رعنائی اور کشش کے لحاظ سے نہ صرف اہلِ بھوپال بلکہ بھوپال میں پناہ گزیں اصحابِ ذوق اور اہلِ شعور کے لیے بہشت کے مانند ہے۔ اس خوب صورت شہر کے خدوخال دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے اسے ہر طرح کے حسن سے نوازا ہے۔ یہ جہاں ایک طرف وندھیاچل کی پہاڑیوں سے گھِرا ہوا ہے، تو دوسری طرف اس کے سینے میں ایسی متعدد جھیلیں انگڑائیاں لے رہی ہیں، جن کی لہروں کی جبیں پر بھوپالی تہذیب و تمدّن کی صدیوں پرانی داستان رقم ہے۔ جھیلوں، تالابوں کی اس سرزمین میں ہر دم شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں جمگھٹا رہتا ہے۔ یہاں کے باسیوں کی مہمان نوازی، ملنساری، رکھ رکھائو اور مروّتوں کی مثال دی جاتی ہے۔ قدیم، عالی شان محلات کا تاریخی شہر، روایتوں اور قصّے کہانیوں کا شہر، جہاں سیاسی و سماجی اور گھریلو مسائل مل جل کر حل کرلیے جاتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر تک نمکین چائے کی چسکیوں اور گلوریوں کے ساتھ بیٹھے مفکرین، جن کے سامنے کہیں تو شطرنج کی بساطیں بِچھی ہیں، تو کہیں کیرم بورڈز۔ گنگا جمنی تہذیب، پُر لطف فضا کا حامل یہ شہر اگر جھیلوں کے شہر کے نام سے معروف ہے، تو ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف عام لوگوں کو جوئی اور تفریحِ طبع کا سامان فراہم کرتا ہے، بلکہ یہ علم و ادب کا گہوارہ بھی ہے، جہاں ادبی اور شعری محفلیں کثرت سے منعقد ہوتی ہیں، جو اس خطّہ مردم خیز کی گراں قدر روایات کی نہ صرف امین ہیں، بلکہ اہلِ علم و ادب کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی ہیں۔
چوں کہ تغیّر و تبدّل نظامِ قدرت ہے، لہٰذا اس کے اثرات بھوپال پر بھی رفتہ رفتہ مرتّب ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ شہر دو حصّوں، پرانا بھوپال اور نیا بھوپال میں منقسم ہوگیا ہے۔ پرانے بھوپال میں آج بھی قدیم محلات کے نقوش کھنڈرات کی صُورت موجود ہیں۔ نواب دوست محمد خان اور نواب سلطا ن جہاں بیگم کا یہ شہر آج بھی اپنی سنہری تاریخ کی کئی کہانیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کی عالی شان مساجد، محراب دروازے اپنی اصل شکل میں اب بھی اپنے تاب ناک ماضی کی داستان دہراتے ہیں۔
بھوپالی فضا کی خاصیّت یہ ہے کہ اس میں بے پناہ سکون ہے۔ یہ وہ شہر ہے، جس کی تاریخ میں ریاست کی حکمرانی ہی نہیں، محلوں کی روایات بھی درج ہیں۔ اس شہر کی پُرخلوص اور پُرامن فضا کا اثر ہے کہ جو یہاں آیا، یہیں کا ہورہا۔ یہاں آج بھی پردے کا رواج، برقعوں کی تہذیب زندہ ہے۔ دِلوں میں ایمان سلامت ہے۔ مساجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ نیز، مندروں سے بھی گھنٹیوں کی آوازیں فضا میں گونج کر گویا اس شہر کی گنگا جمنی تہذیب کا اعلان کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک رہتے ہیں، ہندو، مسلم تہوار مل جل کر منانا یہاں کی مخصوص روایت ہے۔ ہولی کے رنگوں سے کسی مسلمان کا دامن نہ بھیگے اور عید و بقرعید کی دعوت میں ہندو بھائی شامل نہ ہوں، ناممکن ہے۔ جب کہ مختلف شہروں سے آکر بسے باشندوں کی روایات اور جدید ٹیکنالوجی کے اثرات بھی اس شہر پر مرتّب ہو رہے ہیں۔ قدیم روایتوں کی کوکھ سے ایک نئی تہذیب جنم لے رہی ہے اور روایات کا شہر اب اسمارٹ ہوتا جارہا ہے۔ چوڑی سڑکیں، نئے تعمیر شدہ برج، شاپنگ مالز اور کئی بڑے تعلیمی ادارے اس شہر کی ترقّی کا اعلان کررہے ہیں۔
11ویں صدی میں بھوپال پر بادشاہ بھوجپال کی حکومت تھی جس نے اس علاقے میں بہت سی جھیلیں بنائیں۔ ان کے بعد شہر کے فن تعمیر کو دوست محمد خان نے بہت بہتر بنایا جس نے اورنگ زیب کے انتقال کے بعد شہر پر حکومت کی۔
تاہم یہ بھوپال میں بیگموں کا دور تھا جس کی وجہ سے اس علاقے میں ثقافتی اور فنی سرگرمیوں کا عروج تھا۔ جی ہاں، یہ 19ویں صدی میں تھا، کہ بھوپال شہر مسلم خواتین کے ماتحت تھا، اور ان میں سے پہلی خاتون ممولہ بائی تھیں، جنہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد شہر کی دیکھ بھال شروع کی۔
اس کے بعد ممولہ بائی کی جگہ قدسیہ بیگم بنی جنہوں نے اپنے شوہر کے قتل ہونے پر بادشاہی کی باگ ڈور سنبھالی۔ اور قدسیہ بیگم کے بعد ان کی بیٹی نے تخت سنبھالا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان خواتین کے دور حکومت میں بھوپال نے فن اور ثقافتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر بہت ترقی کی۔
اللہ نے بھوپال کو حُسنِ فطرت سے کچھ اس طرح نوازا ہے کہ نہ صرف اس کا ظاہری حسن بلکہ اس کی علمی و ادبی فضا بھی بے مثال ہے۔ یہاں تقریباً ہر شام کسی علمی، ادبی و ثقافتی سرگرمی کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ دورِ حاضر میں یہاں کی شہری سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث شہر تیزی سے ترقّی کی جانب گام زن ہے۔ پرانی بھوپالی گلیاں اب چوڑی سڑکوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ ہر پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر خوب صورت، سرسبز باغات ہیں اور ان کے بیچ سانس لیتی جدید سوچ بھی ہے۔ یہاں کی سینٹرل لائبریری، اقبال لائبریری، برلا مندر، موتی مسجد، جامع مسجد، تاج المساجد اور صدر منزل گویا اس شہر بھوپال کی شان ہیں۔