محمّد منیر احمد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں طویل ملازمت کے بعد2011ء میں چیف مینیجر،لاہور کے عُہدے سے ریٹائر ہوئے۔ 2020ء میں اُن کی کتاب’’ 7th Century Madina Economics‘‘ ایک بڑے دعوے کے ساتھ شائع ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ ساتویں صدی کی ریاستِ مدینہ میں حضرت محمّدﷺ نے جو معاشی نظام نافذ کیا تھا، وہ آج بھی پاکستان اور دنیا کے معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
س: سب سے پہلے اپنے خاندان، تعلیم اور کیرئیر سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: بنیادی طور پر میرا تعلق وہاڑی، پنجاب سے ہے۔وہیں سے میٹرک اور ایف اے کیا۔ ساہی وال سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کی اسناد حاصل کیں۔ایم اے کے 7 میں سے 6پرچے انگریزی اور ایک اردو زبان میں تھا۔ انگریزی پیپرز مغربی معاشی نظریات اور ماڈلز پر مشتمل تھے، جب کہ اردو زبان کے پرچے’’ اسلام کی معاشی اقدار‘‘ میں زیادہ تر تجارتی اور اخلاقی کہانیاں تھیں۔ذہن میں سوال اُٹھا کہ کیا اسلام کسی معاشی نظام کے بغیر ہے؟ حالاں کہ قرآنِ کریم میں اسے ایک مکمل دین کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔بہرحال، 1976ء میں اسٹیٹ بینک، کراچی کے شعبۂ تحقیق میں ریسرچ آفیسر کی نوکری مل گئی۔ یہاں بھی اسی سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا، جس نے آخر کار ایک کتاب کی شکل اختیار کرلی، جس میں، مَیں نے اپنی تحقیق بیان کی ہے۔
س:اسٹیٹ بینک میں ملازمت کا تجربہ کیسا رہا؟
ج: بہت خوش تھا کہ مجھے اُس ادارے میں ملازمت کا موقع ملا ہے، جس کا افتتاح کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان، محمّد علی جناح نے کہا تھا کہ’’ ہمارے مسائل کا حل مغربی معاشی پالیسیز میں نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مقدر کو اپنے انداز میں سنوارتے ہوئے مروّجہ معاشیات کو اسلامی معاشی اقدار سے ہم آہنگ کرنا ہے۔‘‘تاہم، کچھ ہی عرصے بعد میری خوشی، مایوسی میں بدل گئی، کیوں کہ اسٹیٹ بینک کا سارا کام مغربی معاشی نظریات کی روشنی میں ہو رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا اسلامک اکنامک ڈویژن تھا، جس میں گنتی کے چند لوگ تھے ، جن کا زیادہ وقت فقہی مسائل پر بحث کرنے میں صَرف ہوتا ۔ اُن سے اسلامی معاشی نظام کے بارے میں جاننا چاہا، مگر وہ سُود سے آگے بات نہیں کرتے تھے۔ اِسی اثنا چند اور بنیادی نوعیت کے سوال ذہن میں مچلنے لگے۔ ہجرت کے وقت مدینے میں یہودیوں کی چار مارکیٹس تھیں اور وہ مدینے کی معاشیات پر چھائے ہوئے تھے۔تو کیا ان حالات میں حضرت محمّدﷺ نے کوئی نیا معاشی نظام دیا؟ حضرت عمرؓ کے دَور میں ایرانی اور رومی مفتوح علاقوں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا اکنامک زون وجود میں آیا، تو اُس کا معاشی نظام کیا تھا؟ ان سوالات کے خاطر خواہ جوابات نہیں ملے، مگر شعبۂ تحقیق میں کام کے باعث مجھے مغربی معاشی نظام اچھی طرح سمجھ میں آ گیا۔سُودی نظام کی تباہ کاریوں سے میں بخوبی واقف ہو چُکا تھا۔
س: ریٹائرمنٹ کے 9سال بعد آپ کی کتاب مکمل ہوئی، اس دَوران کیا تحقیقی مصروفیات رہیں؟
ج: اس عرصے میں مختلف نوعیت کے کام کیے۔ بینکاری کی تربیت کے لیے ایک ادارہ قائم کیا اور تقریباً سات سو بینکرز کی تربیت کی۔ پھر یونی ورسٹی کے طلبہ کو اسلامی اور سودی بینکاری پڑھانا شروع کر دی۔ دو سال انگریزی روزنامے، ڈان میں بینکنگ اور فنانس پر لکھا۔ 2015-16ء میں اسلامی معاشی نظام کے خدّوخال میرے ذہن کے اُفق پر نمودار ہونا شروع ہوئے، مگر مَیں اُنہیں معاشیات کی زبان میں بیان کرنا چاہتا تھا۔ 2017ء میں ایک جرمن اسکالر، بینی ڈکٹ کوہلر کی کتاب’’ Early Islam and Birth of Capitalism‘‘ پڑھی۔ یہ کتاب خالصتاً معاشیات کی زبان میں ساتویں صدی کی ریاستِ مدینہ کے معاشی نظام کی تفصیل بیان کرتی ہے، جس کا مَیں عرصے سے متلاشی تھا۔اِس کتاب کے مصنّف نے ساتویں صدی کی ریاستِ مدینہ کو انسانیت کا پہلا معاشیات دان قرار دیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کتاب کے تمام ماخذ اسلامی اسکالرز ہی تھے، جیسے حافظ ابنِ کثیر، ابنِ اسحاق، سعودی، واقدی اور بلازری وغیرہ۔پھر اسلامی معاشی نظام پر کتاب لکھنا شروع کی، جو دو سال میں مکمل ہوئی۔
س: اپنی کتاب کی ترتیب کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: یہ کتاب تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں مختلف معاشی نظام کے اجزائے ترکیبی اور مدینہ اکنامکس کا ذکر ہے۔مدینہ اکنامکس کے دنیا میں پھیلائو کا تذکرہ دیگر مصنّفین کی زبان میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے حصّے میں سرمایہ داری نظام کی ناکامیوں اور سُود کے عروج و زوال کی داستان تازہ ترین مغربی معاشی ادب کی روشنی میں بیان کی ہے۔ تیسرے حصّے میں مدینہ اکنامکس کی دورِ حاضر کے عالم گیر معاشی مسائل حل کرنے کی صلاحیت بیان کی گئی ہے۔مزید براں، پاکستان میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی مکمل تفصیل اور حکمتِ عملی بھی دی گئی ہے۔ سُود کی تاریخی حیثیت، سود کی قرآنی ممانعت کی عقلی توجیہہ تازہ ترین معاشی اعداد و شمار کی مدد سے بیان کی گئی ہے۔
س: سُود کی کچھ مزید وضاحت فرمادیں؟
ج: دیکھیں، سرمائے کے استعمال کے دو طریقے ہیں۔ صاحبِ سرمایہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ دست یاب سرمائے کو اشیا کی پیدائش اور خریدوفروخت میں استعمال کرے، یعنی تجارت ،کاروبار کرے، اسے عربی میں’’ بیع‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے سرمائے کو کسی دوسرے کو پہلے سے طے شدہ اضافی رقم کی شرطیہ ادائی پر ایک مخصوص عرصے کے لیے اُدھار دے دے۔ یعنی سُود کا کاروبار کرے۔ عربی میں اسے’’ رِبا‘‘ کہتے ہیں۔ قرآنِ پاک نے بیع کو حلال اور رِبا کو حرام قرار دیا، تو مدینے کے یہودیوں نے سوال کیا کہ’’ یہ تو تجارت کے دو طریقے ہیں اور ایک دوسرے کی مانند ہیں؟‘‘ اس پر قرآن نے وضاحت فرمائی کہ’’ بیع میں فلاح ہے اور سُود میں ہلاکت ہے۔‘‘ یہ ایک قسم کا بیانیہ تھا، جسے کبھی بھی معاشی اعداد و شمار سے ثابت نہیں کیا گیا، کیوں کہ ہمارے ہاں سُود پر بحث حلال و حرام سے آگے ہی نہیں بڑھتی۔2011 ء میں فرانسیسی معاشی مہار، دان تھامس یکیٹی نے ترقّی یافتہ ممالک کے 250سال کے معاشی اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ سرمائے کا معاوضہ بطور سُود دوسرے عاملینِ پیداوار سے زیادہ ہے اور ایسی صُورت میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہم وار ہو جاتی ہے۔ 2010ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے صدر نے مختلف مذاہب کے پیرو کاروں سے سرمایہ داری نظام کی اصلاح کے لیے تجاویز مانگیں، کیوں کہ تینوں الہامی مذاہب میں سُود منع ہے۔ 500سال کی معاشی تاریخ میں اہلِ مغرب پر ایسی بے بسی اور لاچاری نہیں آئی، جیسی کہ آج ہے۔لہٰذا، اِس وقت انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کی یونی ورسٹیز اور دینی مدارس میں سُود کی تباہ کاریوں پر جدید انداز میں تحقیق کی جائے۔ مَیں نے اس سلسلے میں’’ مدرسہ، اسکول اتحاد‘‘ کی تجویز دی ہے، جس پر غور کیا جانا چاہیے۔
س: مدرسہ، اسکول اتحاد سے آپ کی کیا مُراد ہے؟
ج: پاکستان میں اسلامی معاشی نظام پر کبھی کام نہیں کیا گیا، صرف اسلامی بینکاری پر کام ہوا ہے، جو سارا اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کیا ہے۔ ہم توقّع لگائے بیٹھے ہیں کہ اسٹیٹ بینک ایک دن سُود کا خاتمہ کر دے گا، جو ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ ہر مُلک کا مرکزی بینک سُود کا محافظ اور پاسبان ہوتا ہے، کیوں کہ اُس کی مانیٹری پالیسی دراصل شرحِ سود میں اُتار چڑھائو کے سِوا کچھ بھی نہیں ۔ قائدِ اعظم نے یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کو مغربی معاشی پالیسیز کو اسلامی معاشی اقدار میں ڈھالنے کو کہا تھا، مگر بدقسمتی سے ہم اسلامی بینکنگ سے آگے نہیں جا سکے۔ پاکستان میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے لیے مدارس کے طلبہ، اُن کے اساتذہ اور معاشیات کے طلبہ اور اُن کے پروفیسرز کے درمیان اتحاد و تعاون کی ضرورت ہے تاکہ مدینہ اکنامکس کے معاشی بیانیے کو تھیوریز اور معاشی ماڈلز میں تبدیل کیا جا سکے۔
س: آپ کی تحقیق کے مطابق حضرت محمّدﷺ نے کیسا معاشی نظام نافذ کیا؟
ج: یہ بہت اہم سوال ہے۔قرآنِ کریم کے دو الفاظ’’ صلوٰۃ‘‘ اور’’ زکوٰۃ‘‘ دراصل دو نظام ہیں، جن کے قیام کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی سورۂ حج کی ان آیات میں یوں وضاحت آئی،’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں اقتدار دے دیں، (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائی (کا انتظام) کریں‘‘۔ حضرت محمّدﷺ نے مدینہ پہنچ کر اسی ترتیب سے کام کیا۔ صلوٰۃ کا نظام تین حصّوں پر مشتمل تھا، مسجدِ نبویؐ کی تعمیر، مکّے کے قریش اور مدینے کے انصار کے درمیان مواخات کا قیام اور میثاقِ مدینہ۔ گویا صلوٰۃ، ایمانیات، معاملات اور سیاسی حکومت کے قیام کا نام ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے زکوۃ پر کام شروع کیا۔ اُس وقت مدینے میں یہودیوں کی چار مارکیٹس تھیں، تو آپؐ نے ایک نئی اسلامی مارکیٹ کے قیام کا حکم دیا۔ یہ مارکیٹ ایک بڑے سے خیمے میں لگائی گئی، جس میں تجارت پر ہر قسم کا ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ یہودیوں کی مارکیٹس میں ٹیکس کے باعث اشیا کی قیمتیں زیادہ تھیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں ریاستِ مدینہ میں عظیم معاشی انقلاب برپا ہوگیا۔ دوسری مارکیٹ سے تاجر، خریدار اور منڈی میں اشیا لانے والے خیمے والی اسلامی مارکیٹ میں آ گئے۔ اس پر یہودی سردار، کعب بن اشرف نے اُس خیمے کی رسیاں کاٹ دیں، جس کے نیچے مارکیٹ کام کر رہی تھی۔ اس پر آپﷺ نے ایک بڑے میدان میں مارکیٹ قائم کرنے کا حکم دیا۔ معاشی نظام کے نفاذ کا یہ پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں تجارت کو لُوٹ کھسوٹ اور دھوکا دہی سے پاک کیا گیا۔ اِس سلسلے میں بہت سی احادیث ملتی ہیں۔ سب سے آخر میں 9ذی الحج10ہجری کو سُود کا خاتمہ کر کے معاشی نظام کی تکمیل کر دی گئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہم اس ترتیبِ نبویؐ کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ہم لُوٹ کھسوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی تجارت کی موجودگی میں سُود کو سب سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
س: اگر اسلام میں تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے، تو حکومتی اُمور کیسے چل پائیں گے؟
ج: اسلام میں اندرونِ مُلک تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے، البتہ، زراعت سے ہونے والی آمدنی پر عُشر اور دوسرے ذرائع آمدنی پر ڈھائی فی صد سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ہے، جو ہر حال میں حکومت کو ادا کرنی ہے، اس کے علاوہ امپورٹ ڈیوٹی کی اجازت ہے۔ٹیکس کا موجودہ مغربی نظام بہت ظالمانہ ہے، جس میں ایک شوگر مل کا مالک اور اُس مل کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار اشیا کی ایک ہی قیمت ادا کرتے ہیں۔ تجارت پر ٹیکس نہ لگانے کے تین فائدے ہیں۔ اوّل، تجارت فروغ پاتی ہے، دوم، اشیا کی قیمتیں کم رہتی ہیں۔ سوم، غریب کی تقریباً آدھی غربت اُس کی آمدنی میں اضافے کے بغیر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ منہگائی کی ایک بڑی وجہ ٹیکسز کی بھرمار ہے۔ زکوٰۃ سے متعلقہ جدید امور پر مدرسے اور اسکول میں تحقیق کی ضرورت ہے۔ اگر زکوٰۃ سے پانچ ہزار ارب روپے اکٹھے ہو جائیں، تو تجارت پر عاید بہت سے ٹیکس ختم کیے جا سکتے ہیں۔
س: مدینہ اکنامکس کو انسانیت کا پہلا معاشی نظام کیسے کہہ سکتے ہیں؟
ج: مَیں نے اِسی لیے انگریزی زبان میں کتاب لکھی تاکہ اہلِ مغرب کو اُن ہی کی زبان میں بتایا جا سکے کہ مارکیٹ پر مبنی پہلا معاشی نظام، مدینہ اکنامکس ہے۔ اپنے مُلک کے باسیوں کے لیے اسے اردو زبان میں تحریر کیا ہے۔میرا دعویٰ خالی اور کھوکھلے الفاظ پر مشتمل نہیں ہے۔ اسلام سے پہلے معاشیات منتشر حالت میں موجود تو تھی، مگر معاشی جدوجہد کے قوانین و ضوابط وجود نہیں رکھتے تھے۔ مارکیٹ میں قیمتوں کا تعیّن، ملکیت کا عطا ہونا یا ضبط ہونا اور قرض کی ادائی یا انکار، یہ سب بادشاہ کی مرضی پر تھا۔ علاوہ ازیں، تاجر کے پیسوں کی کوئی عزّت نہیں تھی۔یہ اعزاز ساتویں صدی کی ریاستِ مدینہ کو جاتا ہے، جب پہلا معاشی نظام نازل ہوا اور جسے خود حضرت محمّدﷺ نے نافذ کیا، جو بعدازاں چار سو سال تک پوری دنیا پر چھایا رہا۔ اسلام کا تجارت پر یہ احسان ہے کہ اسے نبیوں کا پیشہ قرار دیا اور سچّے تاجر کے رتبے کو شہدا اور صالحین کے برابر کر دیا۔
س: کون سے ممالک فوری طور پر ’’ مدینہ اکنامکس‘‘ سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
ج: تین خطّوں میں مدینہ اکنامکس کی پذیرائی ہو سکتی ہے۔ اوّل، مغرب کے ترقّی یافتہ ممالک ہیں، جو سرمایہ داری نظام کی اصلاح کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں، اگر وہ سود کی محبّت سے بالاتر ہو کر اِس کتاب کو پڑھیں، تو یقیناً رہنمائی کے سوتے پھوٹیں گے۔ دوسرا خطّہ اسلامی ممالک کا ہے، جو مدینہ اکنامکس کے وارث اور امین ہیں۔ وہ اسے پڑھیں گے، تعریف بھی کریں گے، مگر اس پر عمل اُن کے بہت مشکل ہے۔میرا سبق نئی اُبھرتی عالمی طاقت، چین کے لیے ہے۔ کارل مارکس نے سُودی لین دین سے منع کیا تھا۔ اب صرف چین کارل مارکس کے نظریات کو تھامے ہوئے ہے، مگر اس نے سُود کے کاروبار کو اپنا لیا ہے۔ اگر چین سُودی کاروبار چھوڑ دے، تو اس کی معاشی ترقّی کو دوام نصیب ہو سکتا ہے۔