عرب امارات کی ریاست، دبئی کو ایک محفوظ اور نہایت دوستانہ شہر کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ دبئی بلند و بالا شان دار عمارتوں، عظیم رہائشی منصوبوں، مختلف کھیلوں کے ایونٹس کے علاوہ سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کا شمار دنیا کے 25 مہنگے ترین شہروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ چوں کہ دبئی ائیرپورٹ کافی وسیع و عریض ہے، اس لیے ہمیں وہاں سے نکلنے میں کافی وقت لگا۔ ہمارا قیام ’’البراق ریسٹورنٹ‘‘ میں تھا، جو ڈیرہ دبئی کے علاقے ’’گولڈ سوق‘‘ میں واقع ہے۔ ’’سوق‘‘ بازار کو کہتے ہیں، یعنی اس وقت ہم سونے کے بازار میں تھے۔ انتہائی صاف ستھرا علاقہ ہے۔ دور دور تک دو طرفہ سونے کی جگمگاتی دکانوں کے ساتھ موبائل اور الیکٹرانک سامان کی بھی بے شمار دکانیں موجود ہیں۔ اگرچہ سونے کی اس طرح کی متعدد مارکیٹس شہر کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں، لیکن صرف ’’گولڈ سوق، ڈیرہ دبئی‘‘ میں سونے کی لگ بھگ دو سو پچاس دکانیں موجود ہیں۔ سونے کے اتنے وسیع پیمانے پر کاروبار کی وجہ سے اِسے ’’سٹی آف گولڈ‘‘ یعنی ’’سونے کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گولڈ سوق کے اس بازار کے ایک شوروم میں سونے کی ایک بہت بڑی رِنگ سجی دیکھی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی سونے کی انگوٹھی ہے۔ اسے دیکھ کر صرف نظریں ہی خیرہ ہوسکتی ہیں، خریدنے کا تو تصور بھی محال ہے۔ بہرحال، وہاں سے ہم نے ہوٹل کی راہ لی کہ اسی شام ’’DowCruise‘‘ یعنی کروز جہاز کے ذریعے دریا کے سیر کا پروگرام طے تھا، جو ہوٹل سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع ہے اور جہاں بہت سے بحری جہاز قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ساتھ بیٹا، ڈاکٹر اظفر سکندری بھی تھا، لہٰذا دو ٹکٹس لیے اور جہاز میں بیٹھ گئے۔ مسافروں سے بھرنے کے بعد جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ یوں سمجھیں، کروز جہاز چلتی پھرتی ایک دنیا ہے۔ دُوردُور تک سمندر کا سینہ چیر کر ایک مخصوص رفتار سے چلنے والے بحری جہازوں کی جھلملاتی روشنیاں ایک دل فریب منظر پیش کررہی تھیں۔ ہمارا جہاز ساحل سے کافی آگے نکل کر سمندر کے بیچوں بیچ پہنچا، تو کچھ ہی دیر بعد رنگ برنگی شام شروع ہوگئی۔ جہاز کے عرشے پر ڈھیلا ڈھالاجھبلا پہنے ایک رقاص نمودار ہوا۔ اس کے پورے لباس میں جڑے چھوٹے چھوٹے جگمگاتے رنگین بلب، رنگ برنگی روشنیاں بکھیر رہے تھے۔ مختلف گانوں کی دُھن پر اس نے رقص کے عمدہ کمالات پیش کرکے حاضرین کے دل موہ لیے۔ رقص کے بعد میجک شو کا اہتمام کیا گیا، جس میں دلچسپ و حیرت انگیز کمالات دکھائے گئے۔ جہاز کی بالائی منزل پر بوفے کا انتظام تھا، جہاں انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا، کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ جہاز کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کا اعلان ہوا اور اس طرح یہ دل چسپ سفر اختتام پذیر ہوا۔
اگلے روز ’’شیخ زاید مسجد‘‘ دیکھنے کا پروگرام تھا۔ وسیع رقبے پر پھیلی، جدید طرزتعمیر کے اعتبار سے اپنی مثال آپ اس عظیم الشّان مسجد کا شمار دنیا کی خوب صورت ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ شدید ترین گرم موسم میں مسجد کے اندر خوش گوار ٹھنڈک میں ظہر کی نماز پڑھ کر بےحد سکون و طمانیت کا احساس ہوا۔ نماز کے بعد سیدھے دنیا کی بلند ترین عمارت، برج خلیفہ جا پہنچے۔ تیز دھوپ اور شدید گرمی کے باوجود بھی یہاں ایک خلقت موجود تھی۔ بھانت بھانت کے لوگوں کا ایک جم غفیر جمع تھا۔ لگتا تھا کہ تقریباً سارے ہی ممالک کے لوگ یہاں موجود ہیں۔ برج خلیفہ کو دبئی کی اہم تفریح گاہوں میں سب سے بڑی تفریح گاہ قرار دیا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ یہ پہلے ’’برج دبئی‘‘ اور ’’دبئی ٹاور‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس بلند ترین ٹاور کی اونچائی 828میٹر یعنی 2717فٹ ہے، جو اپنی تعمیر اور بناوٹ کے لحاظ سے دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ اس کی تعمیر 2004ء میں شروع ہوکر2009ء میں مکمل ہوئی۔ 2010ء میں اسے عام افراد کے لیے کھول دیا گیا۔ برج خلیفہ کو اس وقت کے حاکم اور متحدہ امارات کے صدر، خلیفہ بن زاید النہیان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یوں تو تفریح و دل چسپی کے حوالے سے اس ٹاور میں لاتعداد چیزیں ہیں، تاہم اس کا ’’ڈانسنگ فائونٹین‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو دن میں بھی رنگ و نور کی روشنیاں بکھیرتا ہے، مگر رات کے وقت تو یہ جوبن پر ہوتا ہے اور بہت دل فریب نظارہ پیش کرتا ہے۔ پانی کے اندر سے نکل کر اچھلتی ہوئی بجلیاں دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیتی ہیں۔ برج خلیفہ کے باہر بنے اس فائونٹین کو ویٹ انٹر پرائزز نے ڈیزائن کیا اور اس کی تعمیر پر تقریباً 800ملین درہم یعنی217ملین امریکی ڈالر لاگت آئی۔ فائونٹین میں 6600لائٹیں نصب کی گئی ہیں اور پچاس رنگین پراجیکٹر لگائے گئے ہیں، جو ان روشنیوں کو چاروں طرف پھیلاتے ہیں۔ اس عمودی فائونٹین میں 500فٹ تک پانی اچھالنے کی صلاحیت ہے۔ سیّاح، برج خلیفہ میں داخلہ فیس 300درہم (تقریباً پاکستانی دس ہزار روپے) کا ٹکٹ لے کر اس کے اندر اور اوپر تک جانے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ برج خلیفہ کے ساتھ ہی ’’دبئی شاپنگ مال‘‘ ہے، جو دبئی کا سب سے بڑا شاپنگ مال تصوّر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف دبئی شہر میں70سے زائد بڑے شاپنگ سینٹرز موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسے مشرقِ وسطیٰ کا شاپنگ کیپٹل بھی کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہاں جگہ جگہ ’’1 ٹو 10 سینٹرز‘‘ اور’’10ٹو 20درہم سینٹرز‘‘ بھی موجود ہیں، جہاں ایک سے دس اور دس سے بیس درہم میں بھی خریداری کی جاسکتی ہے۔

ڈیزرٹ سفاری ایک ریگستانی صحرا ہے۔ یہ ریت سے بنے پہاڑی ٹیلوں کے ایک طویل نشیب و فراز کا سلسلہ ہے۔ یہاں بھی سیاحوں کے لیے بھرپور تفریح کے مواقع میسّر ہیں۔ چونکہ ریت اور پہاڑ کی وجہ سے ڈرائیونگ انتہائی مشکل اور خطرناک ہوتی ہے، اس لیے کسی ماہر اور تجربہ کار ڈرائیور ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جیپ کے ذریعے ان ریتیلے پہاڑی سلسلوں کو عبور کرنا ایک دل چسپ تفریح ہے۔ نمازِ جمعہ کے بعد ہماری روانگی ڈیزرٹ سفاری کی طرف تھی۔ یہاں پہنچ کر ہم نے بھی اس معرکہ خیز سفر کا آغاز کیا، جیب جب تیزی کے ساتھ ہچکولے کھاتی ہوئی اوپر نیچے جاتی ہے، تو ڈراور خوف کے مارے سانسیں رکنے لگتی ہیں۔ نصف سفر کے بعد تمام مسافر گاڑیوں سے اترکر صحرا کی رونق سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جہاں جنگل میں منگل کا سا سماں ہوتا ہے۔ یہاں کچھ دیر رکنے کے بعد ڈیزرٹ کے دوسرے کنارے پہنچے، تو سڑک پر کچھ دیر تک چلنے کے بعد ہم ایک انتہائی پُررونق جگہ پر تھے۔ یہاں ایک خوب صورت اسٹیج بنا ہوا تھا، جس کے چاروں طرف گائو تکیوں کے ساتھ نشستیں بھی تھیں۔ رات بھیگ رہی تھی، کچھ دیر بعد اسٹیج پر بیلے ڈانس کا سلسلہ شروع ہوا۔ خوب صورت کپڑوں اور رنگ برنگی لائٹس سے سجے چوغوں میں ملبوس ڈانسرز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔
دبئی متحدہ عرب امارات کا کثیر آبادی والا شہر ہے، اسی وجہ سے امارات کے سات شہروں میں اسے سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔ یہ دارالخلافہ بھی ہے۔ سن1960ء تک دبئی کی معیشت تجارت سے حاصل ہونے والے ریونیو پر مشتمل تھی۔ 1969ء میں تیل کی دریافت نے دبئی کی قسمت بدل دی۔ جو اس کی تیزی سے ترقی اور تعمیر کا سبب بنی۔ دبئی نے درحقیقت دنیا کی توجّہ اپنی جانب اپنے خوب صورت بلڈنگ پراجیکٹس اور دیگر نمایاں تبدیلیوں کی وجہ سے مبذول کروالی ہے، مزید یہ کہ مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد نے بھی دبئی کو خاص اہمیت کا حامل شہر بنادیا ہے۔ اسی لیے 2012ء تک دبئی دنیا کا 22واں اور مشرقِ وسطیٰ کا سب سے منہگا شہر تھا۔ دبئی کی ایک اور شان دار عمارت برج العرب بھی ہے، جو اونچائی کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی عمارت ہے۔ مصنوعی جزیرے پر تعمیر کی گئی اس عمارت کو جمیرہ بیچ سے920فٹ کے فاصلے پر زمین کی سطح سے ایک خم دار پل کے ذریعے ملایا گیا ہے۔ برج العرب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ زمین سے 690فٹ کی بلندی پر عمارت کے ٹاپ پر ایک ہیلی پیڈ بنایا گیا ہے۔دبئی کا مریکل گارڈن MIRACLE GARDEN))بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ 72ہزار میٹر یعنی دو لاکھ چھتیس ہزار فٹ پر بنا یہ پھولوں کا رنگین باغ، دنیا کا سب سے بڑا فلاور گارڈن ہے۔ جس میں مختلف اقسام کے ساڑھے چار کروڑ پھول موجود ہیں، جو یہاں آنے والوں کے لیے نہ صرف حیرت کی وجہ بنتے ہیں بلکہ ایک خوشگوار احساس بھی بیدار کرتے ہیں۔

دبئی کا موسم عموماً گرم رہتا ہےاورگرم ہوائوں کے ساتھ سڑکوں پر ریت اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ دن میں درجہ حرارت 41cاور رات میں30ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اگست گرم ترین مہینہ ہے،مگر یہاں کے بیش تر دن گرم ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ سردیوں میں بھی دن گرم گرم سے لگتے ہیں، جب کہ سردیوں میں دن کا درجہ حرارت 24cاور رات مبں14cہوتا ہے۔ عموماً جنوری سرد مہینہ کہلاتا ہے۔ بارش کبھی کبھار ہوتی ہے، جو عام طور پر موسمِ سرما میں پانچ دن تک ہوتی ہے۔
بشکریہ:ڈاکٹر صابر سکندری