س: جس عورت کا خاوند مرجائے اس کو کیا کرنا چاہئے اور کتنے دنوں کی عدت گزارنی چاہئے؟
اسے سوگ کرنا چاہئے، چاہے، چار مہینے اور دس روز تک وفات کی عدت گزارے اور ان دنوں میں نہ زینت کی چیزیں استعمال کرے، نہ خوشبو اور سرمہ اور نہ مہندی لگائے۔ سادہ لباس پہنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنہ عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ خاوند کے علاوہ کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، نہ سرمہ لگائے نہ رنگا کپڑا پہنے۔ (بخاری) اور نہ خضاب لگائے اور نہ زیور پہنے (ابوداﺅ، نسائی) ایک صحابیہ خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری بیٹی کے میاں کا انتقال ہوگیا ہے اوربیٹی کی آنکھیں کہہ رہی ہیں کیا اس میں سرمہ لگا سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں (بخاری)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ”اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان کی عورتیں چار مہینے دس روز عدت کی مدت ختم کر لیں پھر اچھائی سے جو اپنے لئے کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے با خبر ہے۔ “ (البقرہ)
حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سبیعہ اسلمیہ کے حق میں فیصلہ فرمایا تھا۔ (بخاری)
س: کیا عدت والی عورتوں کو پیغام نکاح دے سکتے ہیں ؟۔
عدت میں نکاح کرنا اور نکاح کا پیغام دینا حرام ہے کنایہ اور اشارہ سے بات چیت جائز ہے۔ جیسے یوں کہے کہ مجھے نیک عورت سے نکاح کرنا ہے یا مجھے نکاح کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ”تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارةً کنایةً ان عورتوں نکاح کی بابت کہو یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور انھیں یاد کرو گے۔ لیکن تم پوشیدہ ان سے وعدہ نہ کرلو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم پہچانا ہوا محاورہ کہو۔عقد نکاح کو (جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجائے، یہ پختہ نہ کر لیا کرو۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے دلوں کی بات کا بھی علم ہے۔ تم اس سے خوف کھاتے رہو۔ اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔“ (البقرہ)
س: عدت والی عورت کو گھر بار سے نکلنا جائز ہے یا نہیں؟
عدت والی عورت کو باہر نکلنا جائز نہیں۔ حضرت فریعہ بنت مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ ان کے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے عدت کہاں گزاریں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
ترجمہ: ”تم اپنے اس گھر میں عدت گزارو۔جس گھر میں تمہارے خاوند کے مرنے کی خبر پہنچی ہے یہاں تک کہ عدت ختم ہو جائے۔ “(المنتقی مع نیل)
علامہ شوکانی ؒ نیل میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رانڈ عورت اس گھر میں عدت گزارے جس گھر میں اس کے خاوند کے انتقال کی خبر اسے پہنچی ہے مجبوری اور ضرورت سے دن کو باہر نکل سکتی ہے۔ رات کو سای گھر میں رہنا چاہئے۔ مطلقہ بائنہ مجبوری کے وقت دوسرے کے گھر میں عدت گزار سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کو ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارنے کی اجازت عنایت فرمائی تھی۔ (احمد، ابوداﺅد، نسائی) اورجب کوئی مجبوری نہ ہو تو مطلقہ کو بھی عدت کے زمانے میں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ”اے نبی جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں ان کو طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی کر بیٹھیں یہ ہیں خدا کی مقرر کردہ حدیں جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنا ہی برا کیا کوئی نہیں جانتا شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ “ (طلاق)
