س: لعان کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا احکام ہیں؟
لعان کے معنی لغت اور دوی کے ہیں اور محاورہ میں اس کو کہتے ہیں کہ خاوند نے اپنی بیوی پر الزام لگایا کہ اس نے زنا اور بدکاری کی ہے اوربیوی اس سے انکار کرتی ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ہے ان دونوں پاس سوائے اپنے نفس کے اور کوئی گواہ نہیں تو جب یہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوگا حاکم دونوں کو سمجھائے کہ دونوں میں سے کوئی ضرور جھوٹا ہے۔ جھوٹا اپنے قول سے رجوع کرے۔ اگر دونوں اس بات پر راضی نہیں ہوتے تو حاکم دونوں سے قسم لے گا۔ پہلے شوہر سے چارمرتبہ قسم لے کر جو الزام اس نے لگایا ہے صحیح ہے اورپانچویں مرتبہ اس سے یہ کہلایا جائے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔ اس کے بعد عورت سے چار مرتبہ قسم لے کر جوتہمت اس پر لگائی گئی ہے غلط ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہلایا جائے گا کہ جو الزام اس پر لگایا گیا ہے اگر یہ صحیح ہے تو اس پر خدا کا غضب نازل ہو۔ مرد کی پانچویں قسم میں لعنت کا لفظ اور عورت کی پانچویں قسم میں لفظ غضب ہے، کیونکہ عورتیں غضب سے زیادہ ڈرتی ہیں۔ یہ گواہیاں اور قسمیں حد قذف اور سزائے تہمت زنا کے قائم مقام ہیں کیونکہ اگر یہ قسمیں نہ کھائے تو تہمت زنا کی سزا میں اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ لیکن قسمیں کھانے کی وجہ سے یہ سزائیں معاف ہو جاتی ہیں اور عورت کی یہ قسمیں حد زنا کےقائم مقام ہیں اس لئے اگر عورت یہ قسمیں نہ کھائے تو زنا کی حد ماری جائے گی۔ تو ان قسموں کے کھانے سے حد زنا ساقط ہو جائے گی۔ اس طرح کرنے کو لعان کہتے ہیں اور لعان کے بعد حاکم میاں بیوی کے درمیان تفریق کر ادے ، پھر ان میں ملاپ نہیں ہو سکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح ہی ہو سکتا ہے ۔
اس لعان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ:”جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی اپنی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کاثبوت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ (پاک) کی قسم کھا کرکہیں کہ وہ سچوں میں سے ہی ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھا کر کہے کہ یقینا اس کا خاوند جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پرخدا کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں ہو اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا اوربے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا با حکمت ہے۔“(النور)
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان خاوندوں کے لئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان دے جب وہ شہادت پیش نہ کر سکے تو حاکم ایسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا۔ اور یہ قسمیں کھا کر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔
اتنا کہتے ہیں امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر حد زنا ثابت ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے لعان کر لے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم اور دانا ہے۔
لعان کے لئے مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں۔
(۱) لعان حاکم کے سامنے ہونا چاہیے۔ (۲) لعان سےپہلے حاکم دونوں کو سمجھائے اورسمجھنے کا موقعہ دے(۳) لعان کے بعد دونوں میں تفریق کر دے، یہ ہمیشہ کی تفریق ہوگی۔ (۴) لعان سے مہر ساقط نہیں ہوگا اگر نہیں دیا ہے تو دینا پڑے گا۔ اور اگر دے چکا ہے تو واپس نہیں لے سکتا ہے۔ (۵) لعان کے بعد جو اولاد پیدا ہوگی وہ ماں کی طرف منسوب ہوگی۔ باپ کی طرف منسوب نہیں ہوگی۔ (۶) اس اولاد کو حرامی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ (۷) اگر کوئی مرد لعان سے انکار کرے تو اس پر حد قذف جاری کی جائےگی اور اگر عورت اس سے انکار کرے تو اس پر حد زنا قائم ہوگی۔
